اشوک گہلوٹ کے باغیانہ تیور

   

یوں وفا اٹھ گئی زمانے سے
کبھی گویا جہاں میں تھی ہی نہیں
چیف منسٹر راجستھان اشوک گہلوٹ جو کانگریس کے گاندھی خاندان کے قریبی قائدین میںشمار کئے جاتے تھے اور انہیںراہول گاندھی کا انتہائی اہم حلیف کہا جاتا تھا وہ اب باغیانہ تیوراختیار کرچکے ہیں۔ راجستھان میںچیف منسٹر کی کرسی کو لے کر وہ پارٹی اور پارٹی قیادت سے باغیانہ روش اختیار کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ گاندھی خاندان اشوک گہلوٹ کو پارٹی صدر بنانے کیلئے بھی تیار تھا لیکن اشوک گہلوٹ راجستھان میںچیف منسٹرکا عہدہ چھوڑنے تیار نہیںہیں اور اگر بحالت مجبوری انہیں یہ عہدہ چھوڑنا بھی پڑتا ہے تووہ چاہتے ہیں کہ یہ عہدہ ان کے کسی حامی کو دیا جائے ۔ وہ اپنے حریف سمجھے جانے والے نوجوان لیڈر سچن پائلٹ کو یہ عہدہ کسی بھی قیمت پر دینے تیار نظر نہیں آتے ہیںحالانکہ یہ حقیقت ہے کہ اشوک گہلوٹ کے صدر کانگریس بننے کے بعد پارٹی قیادت اور گاندھی خاندان چاہتا ہے کہ سچن پائلٹ کو راجستھان میںچیف منسٹر بنایا جائے ۔ وہ سچن پائلٹ ہی تھے جنہوں نے راجستھان پردیش کانگریس کی صدارت سنبھال کر پارٹی کو ریاست میںاقتدار واپس دلانے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ وہ انتخابات میں کامیابی کے بعد چیف منسٹری کے دعویدار تھے اور انہیںحقدار بھی کہا جاسکتا تھا تاہم راہول گاندھی اور دوسروں کی ترغیب پر وہ ریاست کے ڈپٹی چیف منسٹر بننے تیار ہوگئے تھے ۔ اشوک گہلوٹ کیلئے یہ بھی قابل قبول نہیں تھا ۔ سچن پائلٹ نے باغیانہ تیوردکھائے تھے لیکن راہول گاندھی اورپرینکا گاندھی کی ترغیب پر انہوںنے پارٹی اور حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑا حالانکہ انہیں ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدہ سے مستعفی ہونا پڑا تھا ۔ اب جبکہ اشوک گہلوٹ کیلئے پارٹی کی صدارت کا عہدہ پیش کیا جانے والا تھا گہلوٹ نے اسی پارٹی سے باغیانہ تیور اختیار کرلئے اور ارکان اسمبلی کے استعفی کی دھمکی دیدی جس نے انہیں ایک سے زائدمرتبہ چیف منسٹر بنایا اورا یک موقع پر تو سچن پائلٹ کی محنت کی وجہ سے وہ چیف منسٹر بنے ہیں۔ ایک ایسے وقت جبکہ کانگریس پارٹی اپنی صفوں کو درست کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور عوام سے رابطے بنائے جا رہے ہیں اشوک گہلوٹ کے باغیانہ تیور افسوسناک ہیں۔
گہلوٹ کو سچن پائلٹ کسی بھی قیمت پر قبول نہیںہیں حالانکہ پائلٹ ایک نوجوان لیڈر ہیں۔ راجستھان کے عوام نے انہیں پسند کیا ہے ۔ پائلٹ کی قیادت ہی میں گذشتہ اسمبلی انتخابات میںکانگریس کو اقتدار حاصل ہوا تھا ۔ انہوں نے لوک سبھا کے ضمنی انتخابات میں بھی پارٹی کو کامیابی دلائی تھی جبکہ اشوک گہلوٹ کے چیف منسٹر رہتے ہوئے سارے راجستھان میں کانگریس کو لوک سبھا کی ایک بھی نشست نہیں مل پائی تھی ۔ اس صورتحال میں گہلوٹ پارٹی کی کمزور حالت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ہی پارٹی سے بغاوت کرنے کو تیار ہوگئے ہیں۔ انہوںنے پارٹی اور پارٹی کی قیادت کی اپنے طرز عمل سے ہتک کی ہے ۔ انہیں پارٹی کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ارکان اسمبلی کو سمجھاتے ہوئے اقتدار کی منتقلی کو یقینی بنانے کی ضرورت تھی ۔ تاہم اقتدار کی لالچ میں وہ پارٹی اور پارٹی قیادت کو بھی خاطر میںلانے تیار نہیں ہیں اور ان کے حامی ارکان اسمبلی سے استعفی کی دھمکی دلادی ہے ۔ یہ طرز عمل پارٹی اور پارٹی قیادت کیلئے انتہائی تکلیف دہ کہا جاسکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کانگریس کو دوبارہ فعال اور متحرک بنانے اور عوام کے درمیان لیجانے کی کوششوں کو نقصان ہوسکتا ہے ۔ گہلوٹ چاہتے ہیں کہ وہ پارٹی صدر اور چیف منسٹر دونوں ہی عہدوں پر فائز رہیں جبکہ یہ عملی طور پر بھی ممکن نہیں ہے اور پارٹی کے اصولوں کے بھی مغائر ہی ہے ۔ گہلوٹ شخصی مفاد کی تکمیل کیلئے پارٹی اور پارٹی کے اصولوںکو بھی تہس نہس کرنے کیلئے تیار ہوچکے ہیں۔
کانگریس پارٹی راجستھان میں پیدا ہوئے بحران پرانتہائی تحمل کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔ فی الحال سیاسی حکمت عملی اورفہم و فراست کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے ۔ یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے ۔ سچن پائلٹ کو اس معاملے میں انتہائی برد بار پایا گیا ہے ۔ انہوں نے کوئی بیان بازی یا باغیانہ تیور نہیں دکھائے ہیں۔ اشوک گہلوٹ کو بھی سارے ملک اورپارٹی کی صورتحال کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں پارٹی کے مفاد میںکئی بھی فیصلہ کرنا چاہئے ۔ انہیں شخصی مفادات کی تکمیل کی بجائے ملک اورراجستھان کے مفادات کو پیش نظر رکھنا چاہئے اورپارٹی کو نقصان پہونچانے کی حکمت عملی سے گریز کرنا چاہئے ۔