اعلٰحضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ

   

قاری محمد مبشر احمد رضوی
اعلٰحضرت امام ِاہلسنت مجّددِ آعظم مولانا شاہ محمد احمدرضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمتہ و الرضوان فضائل و کمالات کی بناء پر شرق و غرب میں مشہور ہے‘ آپ نے اپنی تصانیف کے ذریعۂ علوم و معارف کے ایسے دریا بہائے ہیںکہ آج بھی پوری روانی اور جوش و خروش کے ساتھ جاری ہے اور اس سے دنیائے سنیت کا ہر فرد سیراب ہو رہا ہے۔
خاندانی حالات: حضرت مولانا شاہ سعید الدین خانؒ جن کا قندہار کے اکابر علما میں شمار تھا‘ آپ وہا ںکے معزز خاندان و قبیلہ بڑھیج کے پٹھان تھے۔ سلاطین مغلیہ کے دور حکومت مین سلطان محمد شاہ‘ نادرشاہ کے ہمراہ پہلے لاہور تشریف لائے اور ایک مدّت تک مناصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اعلٰحضرت اُن ہی بزرگوں کی اولاد میں ہیں۔
ولادتِ با سعادت: اعلٰحضرت علیہ الرحمہ بریلی شریف کے مقام جسولی میں ۱۰؍ شوال مکرم‘ ۱۲۷۲؁ھ م ۱۴؍جون ۱۸۵۶؁ء روزِ شنبہ (ہفتہ) بوقت ظہر اس خاکدانِ عالم میں تشریف لائے‘ خود اعلٰحضرت نے اپنا سن ولادت قرآن پاک کی آیت مبارکہ سے استخراج فرمایا۔ ’’یہ وہ لوگ ہین جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی طرف سے روح کے ذریعۂ اُن کی مدد فرمائی‘‘۔ اعلٰحضرت کے جدِّامجد نے آپ کا اسمِ گرامی محمد احمد رضا رکھا آپ کے والدِ ماجد علیہ الرحمہ نے آپ کو ’ ’احمد میاں‘‘ سے یاد فرمایا کرتے تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ صاحبہ پیار و محبت سے’’امّن میاں‘‘ کہکر پکار تی تھیں۔

بشارت قبلِ ولادت: اعلٰحضرت علیہ الرحمہ کے ولادت سے پہلے والد ماجد نے ایک خوشگوار خواب دیکھا اورصبح کو اپنے جد محترم مولانا شاہ رضا علی خان صاحب ؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر خواب بیان کیا۔ آپ نے فرمایا تمہارا خواب اچھا ہے اسمیں تمہیں بشارت دی گئی ہیکہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک ایسا فرزند عطا فرمائیگاجوبفضلہ تعالیٰ مشرق و مغرب میں مشہور ہوگا اور علوم و معارف کے دریا بہائیگا۔آپکی تسمیہ خوانی چار سال کی عمر منعقد ہوئی اورجسکے بعد آپ نے قرآنِ حکیم ناظرہ ختم فرمایا ۔ آپکو بچپن ہی سے علم حاصل کرنے کا شوق تھا اسی وجہ سے بہت جلد آپ کا سینہ علوم سے معمور ہوگیا۔ اعلٰحضرت عظیم البرکت نے ابتدا ئی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عربی صرف ونحو کی کتابیں مولوی غلام علی بیگ صاحب سے پڑھیں۔ اس کے بعد اپنے والد ماجد حضرتِ فقیہِ زماں محدّث ِدوراں علامہ شاہ محمد نقی علی خان صاحب ؒ کی خدمت بابرکت میں رہکر تمام علومِ عربیہ و فنون ادبیہ‘ حدیث و فقہ اور اصول و دیگر معقول و منقول کی درسی کتابیں پڑھکر ۱۲۸۶؁ھ میں دستار فضیلت حاصل فرمائی اس وقت آپ کی عمر شریف چودہ برس کی تھی۔ایک دن اعلٰحضرت نے فرمایا کہ بعض ناواقف لوگ میرے نام کے ساتھ ’’حافظ ‘‘ لکھ دیتے ہیں۔ حالانکہ میںاس لقب کا اہل نہیں ہوں اِس خیال کو ملحوظ رکھ کر آپ نے ماہ رمضان المبارک کی قلیل مدّت میں مکمل حفظ ِقرآن فرمالیا۔آپ نے اپنی ۶۳سالہ زندگی میںتقرباً (۱۲ سو) کتبِ دینیہ کی تصنیف فرمائی۔ سب سے مشہور و معروف کتاب ’’العطایا النبویہ‘‘ جو ۱۲ ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں صرف فتاوے موجودہیں۔آپ کا وصال ۲۵؍ صفر المظفر ۱۳۴۰؁ ھ کو بریلی شریف میں ہوا ۔۲۳‘ ۲۴‘ ۲۵ صفر المظفر کو آپ کا عرس شریف بریلی شریف میں محلہ سوداگران میں عظیم الشان پیمانہ پر منعقد ہوتا ہے۔

سنہری باتیں
٭ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: نبی کریمﷺ نے مجھ سے فرمایا (خیرات کو) مت روکو ورنہ تمہارا رزق بھی روکا جائے گا۔ ایک روایت میں ہے: گننے مت لگ جانا ، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن کے دے گا۔(بخاری)
٭ اگر زندگی کو ہمیشہ خوشیوں کےساتھ گزارناچاہتے ہوتو غم زدہ لوگوں کےغم سنا کرو، کبھی دکھی نہیں رہوگے۔(حضرت علیؓ) 
٭ اگر کچھ لینے کی خواہش ہو تو بزرگوں کی دعا لو۔
٭ اگر کچھ دینے کی خواہش ہو تو اللہ کی راہ میں دو۔