اقتدار کی رسہ کشی کا خاتمہ ضروری

   

کرناٹک میں جاری سیاسی بحران مسلسل پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ایک طرف کانگریس اور جے ڈی ایس کے باغی ارکان اپنے استعفوں کے فیصلے پر اٹل دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف کانگریس اور جے ڈی ایس کی جانب سے صورتحال کو قابو میں کرنے اور ارکان اسمبلی کو منانے کی بھی در پردہ کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی کی جانب سے کسی بھی قیمت پر اس صلح صفائی کو روکنے کی مساعی کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ حالات اس وقت مزید پیچیدہ دکھائی دئے جب یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں چلا گیا ۔ سپریم کورٹ نے آج ایک رولنگ جاری کرتے ہوئے جوں کی توں حالت کو برقرار رکھنے کو کہا ہے اور کہا کہ عدالت میں ارکان اسمبلی کے استعفوں اور انہیں نا اہل قرار دینے کے مسئلہ پر 16 جولائی منگل کو سماعت کی جائیگی ۔ منگل تک آج جمعہ کی صورتحال برقرار رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے ۔ اس طرح یہ مسئلہ منگل تک کیلئے جوں کا توں رہے گا ۔ عدالت کی ہدایت کے مطابق اسپیکر کی جانب سے اب نہ ارکان کے استعفوں کو قبول کرنے کے تعلق سے کوئی فیصلہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں نا اہل قرار دینے کی سمت کوئی پیشرفت ہوسکتی ہے ۔ جو تین دن کا وقت ملا ہے اس دوران ایک بات طئے ہے کہ حالانکہ کوئی اہم فیصلہ نہیں ہوگا لیکن سیاسی جماعتوں کو حالات کو اپنے اپنے موافق بنانے کیلئے کافی وقت دستیاب ہوگا ۔ خاص طور پر کانگریس ۔ جے ڈی ایس کے قائدین کیلئے یہ موقع نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے ۔ ان ارکان اسمبلی کو حالانکہ کسی ریسارٹ یا ہوٹل کو منتقل کئے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ کانگریس اور جے ڈی ایس کے ارکان کو ریسارٹ منتقل کیا جا رہا ہے تو بی جے پی نے بھی اپنے ارکان کو بنگلورو کے مضافات میں ایک ریسارٹ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اسے کانگریس ۔ جے ڈی ایس کی جانب سے ارکان کو توڑنے کی جوابی کوشش کے شبہات بھی ہیں۔ ان شبہات کے تحت بی جے پی ارکان کو بھی منتقل کیا جا رہا ہے تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ مستعفی اور باغی ارکان کہاں جائیں گے ۔ صورتحال جو ابھر کر سامنے آئی ہے اس سے واضح ہوگیا ہے کہ یہ رسہ کشی ابھی جاری رہے گی ۔
جمہوری ڈھانچہ میں اس طرح کی صورتحال اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔ ریاست میں ساری حکومت اور انتظامیہ ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے ۔ حکومت کے وجود پر سوال پیدا ہوگئے ہیں۔ اس کا مستقبل غیر یقینی کیفیت کا شکار ہوگیا ہے ۔عوام کو درپیش اہمیت کے حامل مسائل پر بھی کسی کی توجہ نہیں رہی ہے ۔ جہاں کانگریس ۔ جے ڈی ایس کی جانب سے اپنے اقتدار کو بچانے کی جدوجہد کی جا رہی ہے وہیں بی جے پی اس حکومت کو بیدخل کرنے کی حکمت عملی پر عمل کرنے میں مصروف ہے ۔ ان دونوں ہی فریقین کو عوامی مسائل کی یکسوئی اور ریاست کے انتظامیہ کے موثر ڈھنگ سے کام کاج کو یقینی بنانے سے فی الحال کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی ۔ جمہوری عمل میں عوام اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے ووٹوں سے ہی کسی کے سر پر اقتدار کا تاج سجتا ہے تو کوئی کرسی سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ تاہم ہندوستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسی صورتحال بنتی جا رہی ہے ۔ ارکان اسمبلی کو جو چاہے ہانک کر اپنے گروپ میں شامل کرنے میں کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ کرناٹک اور گوا میں موجودہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے ۔ بی جے پی جس طرح سے اپنے مرکز کے اقتدار اور طاقت کا بیجا استعمال اپوزیشن حکومتوں کو زوال کا شکار کرنے کیلئے کر رہی ہے وہ جمہوریت کے ساتھ مذاق سے کم نہیں ہے ۔ تاہم بی جے پی کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ اسے صرف اقتدار سے مطلب دکھائی دیتا ہے ۔
کرناٹک میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کا جلد خاتمہ ضروری ہے ۔ اب جب منگل کو سپریم کورٹ میںاس مسئلہ پر سماعت ہوگی تو یہ امید رکھنی چاہئے کہ عدالت کے فیصلے کے بعد حالات کسی کروٹ ضرور بیٹھ جائیں گے ۔ جو گہما گہمی کی اور غیر یقینی صورتحال کی کیفیت ہے اس کا خاتمہ ہوگا ۔ اس صورتحال کا جلد خاتمہ ہونا ہی ریاست کے مفاد میں ہے ۔ عوام کے مفاد میں ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی رسہ کشی سے ریاستی انتظامیہ ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے ۔ اس صورتحال کو فوری یکسوئی کی سمت لانا ضروری ہے اور اندازہ یہی ہوتا ہے کہ عدالتی فیصلہ ہی اس معاملہ کو یکسوئی کی سمت لا سکتاہے ۔ سیاسی جماعتوں کی مفاد پرستی اور توڑ جوڑ پر تکیہ کرنے سے وقت ضائع ہوتا رہے گا اور جمہوریت کا مذاق اڑتا رہے گا ۔