اقتدار کے 7 سال ‘ مودی کے دعوے

   

بات بھی تشنہ رہی الفاظ بھی مبہم رہے
عہد و پیمانِ نظر لیکن بڑے محکم رہے
اقتدار کے 7 سال ‘ مودی کے دعوے
نریندرمودی نے مرکز میں اقتدار کے اپنے سات سال پورے کرلئے ہیں۔ پانچ سال کی پہلی معیاد کی تکمیل کے بعد دوسری معیاد کے دو سال بھی پورے ہوچکے ہیں۔ نریندر مودی نے آج سات سال کی تکمیل پر اپنے ماہانہ من کی بات پروگرام کے ذریعہ عوام سے خطاب کیا ۔ یہ خطاب بھی در اصل صرف اپنے منہ میاں مٹھو بننے کا ہی ذریعہ بن کر رہ گیا ہے کیونکہ اس میں وزیراعظم صرف تصویر کا ایک ہی رخ پیش کرتے رہے ہیں اور جو دوسرا اور منفی رخ ہے اس جانب کوئی توجہ نہیں کی جاتی ۔ آج نریندر مودی نے اپنے سات سال کی تکمیل پر کئی دعوے کئے اور اپنی حکومت کے کارناموں کو اپنے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاہم انہوں نے حکومت کی ناکامیوں ‘ ملک کی حقیقی صورتحال اور اب تک ہوئی تباہی کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے ۔ ملک میں جمہوریت سے ہونے والے کھلواڑ کی کہیں بات نہیں کی گئی ۔ عوام کے ساتھ ہونے والے مذاق کو اس تقریر میں کوئی جگہ نہیں دی گئی ۔ 100 دن میں مہنگائی پر قابو پانے کے دعوے کے باوجود مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے اس کا انہوں نے اپنی تقریر میں کوئی تذکرہ نہیں کیا ۔ معاشی گراوٹ پر وزیر اعظم نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔ ملک میں صنعتی بحران کی کیفیت نے معاشی بحران کے حالات پیدا کردئے ہیں۔ اندرون ملک پیداوار میں گراوٹ آگئی ہے ۔ جملہ گھریلو پیداوار کم سے کم ہوگئی ہے اور اقل ترین شرح تک پہونچ رہی ہے ۔ ان امور پر بھی وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے ذریعہ ملک کے عوام سے کوئی وضاحت نہیں کی ہے ۔ قومی اہمیت کے حساس ترین مسائل پر بھی سیاست کرنے کی جو روایت ملک میں شروع ہوگئی ہے اس کا بھی نریندر مودی نے کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے ۔ انہوں نے قومی سلامتی اور چین کو منہ توڑ جواب دینے کا دعوی تو ضرورکیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ چین ہندوستان کے کتنے علاقہ پر قابض ہوگیا ہے ۔ جس وقت سٹیلائیٹ تصاویر سے چین کی ہندوستانی سرحدات میں موجودگی اور ائربیس کی تعمیر کا انکشاف ہوا اس وقت بھی وزیر اعظم نے یہ اعتراف نہیں کیا تھا کہ ہندوستان کی سرحدات میں چین کی فوج گھس آئی ہے ۔
وزیر اعظم نے دہی علاقوں میں برقی پہونچانے جیسے کام کا تذکرہ تو نہیں کیا ہے لیکن سات سال قبل ملک کے نوجوانوں سے روزگار فراہم کرنے کا جو وعدہ کیا تھا اس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ۔ بی جے پی نے سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کا نوجوانوں کو لالچ دیا تھا ۔ سات سال میں 14 کروڑ ملازمتیں فراہم کی جانی چاہئے تھیں ۔ ایسا تو نہیں ہوا لیکن اس کے برخلاف کروڑوں ملازمتوں کو ختم کردیا گیا ۔ سرکاری و خانگی دونوں ہی شعبہ جات میں ملازمتوں کی تعداد کو بڑی حد تک گھٹادیا گیا ہے ۔ سرکاری اداروں بی ایس این ایل وغیرہ کو خانگی شعبہ کے حوالے کرتے ہوئے ان کے ملازمین کا مستقبل تاریک کردیا گیا ۔ مزید کئی سرکاری و عوامی شعبہ کی کمپنیوں کو فروخت کرتے ہوئے مستقبل میں وہاں ملازمتوں کے مواقع عملا ختم کردئے گئے ۔ اس کا بھی وزیر اعظم نے کوئی تذکرہ اپنی تقریر میں نہیں کیا ہے ۔ وزیر اعظم نے یہ بھی نہیں بتایا کہ ان کے خیال میں ملک کے کتنے تعلیم یافتہ نوجوانوں اور ڈگری ہولڈرس نے پکوڑے تلنے کا کاروبار کرتے ہوئے روزگار حاصل کیا ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں صرف اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر ہی اکتفاء کیا اور یہ نہیں بتایا کہ ملک کے عوام کی ان سے کیا توقعات رہی ہیں اور انہوں نے ان توقعات کو پورا کرنے کیلئے کیا کچھ کیا ہے اور آگے کیا کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے تصویر کے صرف ایک رخ کو پیش کرنے کی ہی کوشش کی اور چبھتے ہوئے سوالات و الے معاملات کو نظر انداز کردیا ۔
یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ حکومت اور خود وزیر اعظم خود پر تنقیدوں کوبرداشت نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان سے سوال کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صرف ریڈیو پر من کی بات کرتے ہیں لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی وزارت عظمی کے سات طویل برسوں میں انہوں نے ایک بھی پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کیا ۔ انہوں نے کبھی میڈیا کے سوالات کے جواب نہیں دئے اور نہ ہی اپوزیشن کے اعتراضات پر کوئی وضاحت کی ہے ۔ یہ من کی بات نہیں بلکہ من مانی ہے اور اس کی جمہوریت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ وزیر اعظم نے کورونا وباء سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامیوں اور نا اہلیوں کا بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا اور نہ عوامی مشکلات و مصائب کا ہی کوئی اعتراف کرنا مناسب سمجھا ہے ۔