اقوام متحدہ نے ہندوستان پر زوردیا کہ وہ کشمیر امتناعات ختم کرے‘ مکمل انسانی حقوق کی بحالی عمل میں لائے

,

   

منگل کے روز جموں کشمیر میں عام زندگی متاثر ہونے کے 86روز مکمل ہوگئے‘دستور ہند کے ارٹیکل370کی 5اگست 2019کے روز برخواستگی عمل میں ائی تھی۔

نیویارک۔ کشمیرکے حالات پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے مذکورہ اقوام متحدہ نے منگل کے روز یہ کہاکہ وادی میں لوگوں کو دبانے کا سلسلہ جاری ہے اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں اور زوردیا کہ ہندوستانی انتظامیہ مکمل طور پر انسانی حقوق کو بحال کرے۔

منگل کے روز جموں کشمیر میں عام زندگی متاثر ہونے کے 86روز مکمل ہوگئے‘دستور ہند کے ارٹیکل370کی 5اگست 2019کے روز برخواستگی عمل میں ائی تھی‘ اور جموں کشمیر کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کردیا ہے۔

مارکٹس اب بھی بند ہیں وہیں ٹرانسپورٹ بھی سڑکوں سے غائب ہیں کیونکہ جھڑپوں کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے ترجمان روپریٹ کولویلا نے کہاکہ ”ہمیں اس بات کی سخت تشویش ہے کہ کشمیر میں آبادی کے ساتھ محرومی کا سلسلہ بتدریج جاری ہے

اور بڑے پیمانے پرانسانی حقوق کی پامالی برقرار ہے اور ہم زوردیتے ہیں ہندوستانی انتظامیہ پر کہ حالات کو معمول پر لائیں اور جس سے فی الحال انکار کیاجارہا ہے وہ حقوق کو بحال کریں“۔

انہوں نے کہاکہ حالانکہ کچھ اقدامات اٹھائے گئے ہیں مگر ان کے اثرات بڑے پیمانے پر انسانی حقوق پر محسوس کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے کشمیرپر اپنی پریس کانفرنس میں کہاکہ انتظامیہ کی جانب سے نافذ غیرمعلنہ کرفیو جموں او رلداخ کے کچھ حصوں سے چند دن قبل ہٹالیاگیا ہے‘ مگر کشمیروادی کے بڑے حصہ میں یہ اب بھی برقرار ہے‘ لوگوں کی آزادنہ حمل ونقل پر روک لگایاجارہا ہے‘ اور انہیں صحت‘ تعلیم اور مذہبی آزادی اور عقائد کے حقوق سے روکا جارہا ہے۔

انہوں نے احتجاج کے دوران زائد سکیورٹی دستوں کے استعمال کے بھی کئی الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ کولیویلی نے کہاکہ ”ہمارے پاس ایسی خبریں بھی ہیں کہ مصلح دستے جس کااستعمال کشمیر میں ہورہا ہے وہ لوگوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور اس بات کی کوشش کررہی ہے کہ وہ کاروبار شروع کریں‘

اسکول جائیں اور ٹھیک اسی طرح یہ بھی الزام ہے کہ مصلح گروپس کے مطالبات کو عدم یکسوئی پر لوگوں کے ساتھ ظلم کیاجارہا ہے“۔

انہوں نے کہاکہ سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی اور سماجی قائدین بشمول سابق چیف منسٹران جموں او رکشمیر احتیاطی تدابیر کی بنیاد پر زیرتحویل ہیں۔انہوں نے کہاکہ کچھ سیاسی قائدین وہیں رہا کردئے گئے ہیں مگر زیادہ تر قائدین جس کا تعلق کشمیر وادی سے ہے اب بھی تحویل میں ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ”تحویل میں لوگوں کے ساتھ اذیت پہنچانے اور ظلم وزیادتی کے الزامات پر مشتمل رپورٹس بھی موصول ہوئی ہیں۔ جس کی آزادنہ او رشفاف طریقے سے جانچ ہونی چاہئے۔

عالمی قوانین کے تحت اذیت پہنچانے کی سختی سے ممانعت ہے“۔

مذکورہ ترجمان نے الزام لگایا ہے کہ ”سپریم کورٹ برائے ہندوستان حبس بیجااور آزاد حمل ونقل اور میڈیا پر عائد تحدیدات کی درخواستوں پر سنوائی میں بھی سستی دیکھا رہا ہے“۔

انہوں نے کہاکہ جموں او رکشمیر میں انسانی حقوق‘ اقلیتی حقوق اور خواتین کے حقوق کے اداروں کو بند کردیا گیا ہے جس کو دوبارہ بحال کیاجائے۔