اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کرنے والی نماز

   

پروفیسر سید عطاء اللہ حسینی ؒ
اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام محمود کا جو وعدہ فرمایا ہے، نماز تہجد کو اس کا سبب قرار دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’تہجد پڑھئے، یہ آپ کے لئے نفل ہے، یقیناً آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا‘‘ (۱۷؍۷۹) مقام محمود عالم آخرت اور جنت میں ایک بلند ترین مقام ہوگا۔ اس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ وہ مقام ہوگا، جس میں میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا‘‘۔ واضح رہے کہ مقام محمود اور نماز تہجد میں ایک خاص نسبت اور تعلق ہے، یعنی تہجد گزاروں کو مقام محمود کے کسی درجہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ان شاء اللہ تعالی ضرور حاصل ہوگی۔
رات کا وہ پچھلا پہر جس میں تہجد کی تلقین کی گئی ہے، یہ بڑا خاص وقت ہوتا ہے، یہ انبیاء کرام کی عبادتوں کا خاص وقت ہے، یہ فیضان خاص کا وقت ہے، یہ مغفرت عام کا وقت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب رات کا تیسرا حصہ رہ جاتا ہے تو تمہارا پروردگار پہلے آسمان پر (اپنی شان کے مطابق نزول اجلال فرماتا ہے اور) ندا فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعائیں کر رہا ہو، تاکہ میں اس کی دعاؤں کو قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے کچھ مانگ رہا ہو، تاکہ میں اس کو عطا کروں اور کون ہے جو مجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا ہو، تاکہ میں اس کو بخش دوں‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ’’تہجد گزار لوگ خوبصورت ترین لوگ ہوتے ہیں، کیونکہ انھوں نے اللہ تعالی کے ساتھ خلوت کی ہے۔ اللہ کا نور ان کو ڈھانک لیتا ہے، قیامت کے دن جب یہ لوگ آئیں گے تو ایسے نورانی ہوں گے، جیسے اندھیری رات میں چراغ‘‘۔
تہجد کے وقت اللہ رب العزت فرشتوں کی تین جماعتیں زمین کی طرف روانہ فرماتا ہے، ایک جماعت کو حکم ہوتا ہے کہ یہ وقت میرے مقربین کے جاگنے اور مجھ سے تخلیہ کرنے کا وقت ہے۔ یہ وہ وقت ہے، جس میں میرے چاہنے والے مجھ سے راز و نیاز کی باتیں کرتے ہیں، تم دنیا میں جاؤ، فلاں فلاں میرے نافرمان بندے ہیں، جن سے میں ناراض ہوں، انھیں تھپکیاں دے دے کر سلائے رکھو، میں نہیں چاہتا کہ اس وقت وہ میرے سامنے کھڑے ہوں‘‘۔ چنانچہ فرشتے تھپکیاں دے دے کر ان کو سلا دیتے ہیں۔
پھر فرشتوں کی دوسری جماعت کو حکم ہوتا ہے کہ فلاں فلاں میرے وہ بندے ہیں، جنھیں میں پسند کرتا ہوں، تم انھیں پر مارکر جگادو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ سوتے رہ جائیں۔ وہ اٹھ کر میرے سامنے کھڑے ہونے والے ہیں، وہ مجھ سے راز و نیاز کی باتیں کریں گے، وہ مجھ سے مانگیں گے اور میں ان کی جھولیاں بھردوں گا۔ واضح رہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ تھکے ماندے ہونے کے باوجود تہجد کے وقت اچانک ان کی آنکھ کھل جاتی ہے، جیسے کسی نے ان کو جگادیا ہو۔ دراصل فرشتے ان کو جگاتے ہیں، جو خاص اس کام کے لئے آسمان سے بھیجے جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ فوراً اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالی فرشتوں کی تیسری جماعت کو حکم دیتا ہے کہ فلاں فلاں میرے فرماں بردار اور مقرب بندے ہیں، تم جاکر ان کی کروٹ بدل دو، جگانا مت، صرف کروٹ بدل دینا۔ وہ چاہیں تو اٹھ کر نماز پڑھیں، تلاوت کریں، مجھے یاد کریں یا چاہیں تو سوتے رہیں، میں ان سے ہر حال میں راضی ہوں۔ یہ صاحبان معرفت اور عاشقان ذات ہوتے ہیں، یعنی ان کا سونا بھی اللہ تعالی کے نزدیک عبادت ہے۔
بندوں کے یہ تین گروہ ہیں، جن کے لئے آسمان سے ہر رات فرشتوں کی تین جماعتیں بھیجی جاتی ہیں۔ مذکورہ بیان کی روشنی میں ہم اپنا جائزہ لے کر خود فیصلہ کریں کہ ہمارا شمار بندوں کے کس گروہ میں ہے۔ اگر ہم محسوس کریں کہ ہمارا شمار پہلے گروہ میں ہے تو ہمیں فوراً اپنی روش بدل لینی چاہئے، تاکہ اللہ رب العزت کی ہم سے ناراضگی ختم ہو اور ہم اس کے ناپسندیدہ بندے نہ رہیں۔ توبہ و استغفار کریں اور اللہ رب العزت کی طرف رجوع ہو جائیں۔ اور اگر ہم محسوس کریں کہ ہمارا شمار اللہ رب العزت کے پسندیدہ بندوں میں ہے، اس کے مقربین میں ہے تو سجدۂ شکر ادا کریں اور عبادت میں مزید اضافہ کردیں، تاکہ ہم اللہ کے شکر گزار بندے بن جائیں۔ اور اگر ہم محسوس کریں کہ ہمارا شمار اللہ رب العزت کے ان بندوں میں ہے، جن کو وہ ہر حال میں پسند فرماتا ہے اور ہمارا سونا بھی اس کے نزدیک عبادت ہے تو یہ انتہائی شکر گزاری کا مقام ہے۔ ہماری عبدیت کا تقاضا ہے کہ ہم جذبۂ محبت و تشکر سے سرشار ہوکر اس کی عبادت میں لگ جائیں۔ اپنے حال سے مطمئن ہوکر عبادت سے ہرگز غفلت نہ برتیں، کیونکہ قیامت کے دن بڑے سے بڑا عبادت گزار بھی اپنے عبادت کو حقیر اور ہیچ سمجھے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’اگر کوئی شخص اپنی پیدائش کے دن سے موت کے دن تک مسلسل اللہ تعالی کی رضا جوئی کے لئے سجدے میں پڑا رہا تو قیامت کے دن وہ بھی اپنے اس عمل کو حقیر اور ہیچ سمجھے گا‘‘ (مسند احمد) حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت: ترجمہ: ’’وہ لوگ جو کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور ان کے دل اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف واپس جانا ہے‘‘ (۲۳؍۶۰) کے بارے میں دریافت کیا کہ ’’کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں؟‘‘ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اے بنت صدیق! نہیں، یہ بات نہیں ہے، بلکہ وہ خداترس بندے ہیں جو روزے بھی رکھتے ہیں، نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی عبادتیں قبول نہ کی جائیں، یہی تو وہ لوگ ہیں جو نیکیوں کی طرف دوڑتے ہیں‘‘ (ترمذی) اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ بڑی سے بڑی عبادت سے بھی مطمئن نہیں ہونا چاہئے، ڈرتے رہنا چاہئے کہ مبادا ہماری عبادتیں اور ہمارے اعمال کسی کھوٹ کی وجہ سے ہمارے منہ پر نہ ماردیئے جائیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ایک ایسے نوجوان کے پاس تشریف لے گئے، جو بستر مرگ پر تھا۔ آپﷺ نے اس سے پوچھا: ’’تم اپنے آپ کو کس حال میں پاتے ہو؟‘‘۔ اس نے کہا: ’’یارسول اللہ! میں اللہ کی رحمت سے پُرامید ہوں، لیکن ساتھ ہی ساتھ مجھے اپنے گناہوں کی وجہ سے سزا اور عذاب کا ڈر بھی ہے‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: جس دل میں امید اور خوف کی یہ دونوں کیفیتیں اس عالم میں جمع ہو جائیں تو اللہ تعالی اس کو وہ ضرور عطا فرمادے گا، جس کی اس کو اللہ تعالی سے امید ہے اور اس عذاب سے اس کو ضرور محفوظ رکھے گا، جس کا اس کو خوف ہے‘‘۔ (اقتباس)