الیکٹورل بانڈز اور بی جے پی

   

صبح کے اجالوں میں شب کے پاسبانوں کا
حال کیا ہوا ہوگا کیا خبر خدا جانے
ملک میں جس طرح سے ہر شعبہ پر بی جے پی نے اپنا غلبہ بنالیا ہے بلکہ تسلط قائم کرلیا ہے اسی طرح سے الیکٹورل بانڈز کے مسئلہ میںبھی بی جے پی کو دوسری تمام جماعتوںپر غلبہ حاصل رہا ۔ جتنے بھی الیکٹورل بانڈز اس ملک میں خریدے گئے ان میں تقریبا نصف بی جے پی کے حصے میں آئے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح سے بی جے پی کیلئے کارپوریٹ اداروں کی جانب سے فنڈنگ کو یقینی بنایا گیا ۔ بی جے پی کو فنڈنگ ملتی رہی اور کچھ کارپوریٹس کمپنیوں کو کاروبار اور تجارت کو وسعت دینے کے مواقع ملتے رہے ۔ کارپوریٹ شعبہ کیلئے مختلف قسم کی مراعات کا اعلان بھی ہوتا رہا ہے ۔ کئی کارپوریٹس کے ہزاروں کروڑ روپئے کے قرض معاف کردئے گئے ۔کئی کمپنیاں ایسی بھی ہیں جنہوں نے اپنی جملہ مالی حیثیت سے زیادہ مالیت کے الیکٹورل بانڈز خریدے ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی مکمل اور جامع تحقیقات ہونی چاہئیں۔ جہاں تک بی جے پی کی بات ہے تو اس نے ابھی یہ واضح نہیںکیا ہے کہ اسے کن کمپنیوں نے اور کن اداروں نے یا پھر کن افراد نے چندہ دیا ہے ۔ اس نے صرف اسے ملنے والے الیکٹورل بانڈز کے ذریعہ رقومات حاصل کرلی ہیں اور انہیںانتخابات میںاستعمال بھی کیا جا رہا ہے ۔ اب جبکہ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد الیکٹورل بانڈز کا سلسلہ روک دیا گیا ہے اور سیاسی جماعتوں کیلئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ انہیںچندہ دینے والوں کے ناموں کا انکشاف کریں تو بی جے پی نے یہ واضح کردیا ہے کہ اس کے پاس چندہ دینے والوں کے نام اور ان کی شناخت موجود نہیں ہے ۔ بی جے پی کا یہ استدلال ہے کہ چونکہ جس وقت یہ بانڈز دئے گئے اس وقت ایسا کوئی قانون نہیں تھا اور کسی قانون کے تحت یہ شناخت ظاہر کرنی ضروری نہیں تھی اس لئے اس نے ان تمام عطیہ دہندگان کی شناخت نہیں رکھی ہے ۔ یہ در اصل ایک عذر ہے اور قانون سے کھلواڑ کرتے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش ہے ۔ بی جے پی کے پاس یقینی طور پر چندہ دینے والوں کی تفصیلات اور ان کی شناخت موجود رہ سکتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی ان کی شناخت ظاہر کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔
بی جے پی ہندوستان کی سب سے بڑی اور مستحکم پارٹی قرار دی جاتی ہے ۔ اس کے پاس ہر کام کیلئے منظم مشنری موجود ہے ۔ الیکشن لڑنے کی مشنری کو سب سے بہتر قرار دیا جاتا ہے ۔ مخالفین کو نشانہ بنانے کی بھی اس کے پاس بڑی مشنری ہے ۔ ملک بھر کے ہزاروں بیروزگار نوجوانوںکو مخالفین کو نشانہ بنانے کیلئے سوشیل میڈیا پر سرگرم کردیا گیا ہے ۔ کسی بھی مسئلہ پر ہنگامہ آرائی کرنے کیلئے اس کے پاس مشنری موجود ہے ۔ چاہے جے این یو میں مخالف طلبا پر حملہ کرنا ہو یا پھر احمد آباد کی یونیورسٹی میں بیرونی مسلم طلبا پر نماز ادا کرنے پر حملہ کرنا ہو ۔ ہر کام کیلئے اس کے پاس ایک منظم مشنری موجود ہے ۔ اس کے باوجود اگر وہ یہ کہتی ہے کہ اس کے پاس چندہ دینے والوں اور عطیہ دینے والوں کی شناخت موجود نہیں ہے تو یہ ایک بھونڈا مذاق ہی کہا جاسکتا ہے ۔ یہ ایسا عذر ہے کہ اسے کوئی قبول نہیں کرسکتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ قانون کے مطابق جس وقت چندہ یا عطیہ دیا گیا اس وقت شناخت ظاہر کرنا ضرورت نہیں تھا لیکن بی جے پی کے پاس شناخت نہیں ہے ایسا نہیں ہوسکتا ۔ بی جے پی قانون کا سہارا لیتے ہوئے یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ شناخت ظاہر کرنا نہیں چاہتی لیکن چونکہ معاملہ سپریم کورٹ سے متعلق ہے ایسے میں بی جے پی احتیاط سے کام لیتے ہوئے بچنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ بی جے پی کو یہ اندیشہ ہے کہ اس کے چندہ اور عطیہ دہندگان کی شناخت اگر منظر عام پر آجائے تو حکومت کے کئی فیصلوں پر سوال پیدا ہوسکتا ہے اسی لئے بی جے پی اس سے بچنا چاہتی ہے ۔
بی جے پی پر یہ الزامات بھی عائد کئے جا رہے ہیں کہ اس نے کئی کمپنیوں سے چندہ لیتے ہوئے ان سے متعلق کمپنیوں کو کئی ادارے سونپ دئے ہیں۔ انہیں کئی طرح کی مراعات دی گئی ہیں اور کئی کنٹراکٹس بھی دئے گئے ہیں۔ یہ ایسے الزامات ہیں جن کی تفصیلی جانچ اور تحقیقات ہونی چاہئیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب چندہ دینے والوں کی شناخت کا افشاء کیا جائے ۔ وہ چہرے سماج کے سامنے لائے جائیں جنہوں نے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کروڑ روپئے سیاسی جماعتوں کو چندہ دیا ہے ۔ چندہ دینے کے پس پردہ کچھ محرکات ضرور محسوس ہوتے ہیں اور ان کو ملک کے عوام کے سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔