امریکہ میں عوامی احتجاج

   

ایک سیاہ فام باشندہ کی سفید فام امریکی پویس اہلکار کے ہاتھوں ہلاکت نے سارے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ امریکہ کے تقریبا تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام نے اس نسلی امتیازی واقعہ کے خلاف ایک جٹ ہو کر ایسا احتجاج کیا کہ ساری دنیا دیکھتی رہ گئی ۔ احتجاجیوں نے امریکہ کے کونے کونے میں مظاہرے کئے اور قصر صدارت وائیٹ ہاوز تک کو نہیں بخشا ۔ وائیٹ ہاوز کے باہر احتجاج کا اثر یہ ہوا کہ امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ کو اپنے ارکان خاندان کے ساتھ ایک بنکر میں پناہ لینی پڑی ۔ دنیا کے سب سے طاقتور اور محفوظ ترین شخص سمجھے جانے والے ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکی عوام کے احتجاج نے متفکر کردیا تھا اور وہ خود ایک بنکر میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ حالانکہ اس احتجاج میںتشدد بھی پھوٹ پڑا تھا اور تشدد سے گریز کیا جانا چاہئے لیکن اس احتجاج نے ایک بات ضرور واضح کردی ہے کہ چاہے امریکہ ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک ہو عوام کے طاقت کے سامنے طاقتور ترین حکمران بھی بے بس ہیں۔ آج دنیا بھر میں جو ماحول دیکھنے میں آ رہا تھا اس سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ عوام حکومتوں کے آگے بے بس ہوگئے ہیں اور طاقت کے استعمال سے عوام میں خوف کی لہر پائی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی حکومتوں نے عوام کے خلاف طاقت کے استعمال کا وطیرہ بنالیا تھا اور جہاں کہیں حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کی جاتی اس کو طاقت کے استعمال سے دبانے کی کوششیں تیز تر ہوگئی تھیں۔حالیہ وقتوں میںدیکھنے میں آیا تھا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں عوام پر سرکاری فیصلوںکو مسلط کیا جانے لگا تھا اور رائے عامہ کو دبانے کیلئے ہر ممکن طریقے اختیار کئے جا رہے تھے ۔ تاہم امریکی عوام نے جو احتجاج درج کروایا ہے اس نے ساری دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کی ہے ۔ طاقتور ترین انتظامیہ کے خلاف آواز اٹھانا اور احتجاج بلند کرنا امریکی عوام کے جذبہ کو ظاہر کرتا ہے جو کسی ظلم اور نا انصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی طاقت کے آگے جھکنے میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ ظلم کے خلاف سراپا احتجاج بن کر ساری دنیا کیلئے مثال بن گئے ہیں۔

جمہوریت میں عوام ہی اصل طاقت ہوتے ہیںاور دنیا بھر کے حکمران جمہوریت کی دہائی دیتے ہیں۔ جمہوری عمل کے ذریعہ اقتدار حاصل کرتے ہیں اور جب حکومت بن جاتی ہے تو حکومت کی طاقت اور اختیارات کے ذریعہ عوام کو دبانے اور کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی آواز کو کچلا جاتا ہے اور ان کے احتجاج کو طاقت کے استعمال سے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ کئی موقعوں پر تو سودے بازیوں کے ذریعہ احتجاج کو شروع ہونے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا ۔ دنیا بھر میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں جہاں عوام کے احتجاج کو طاقت کے استعمال سے کچلا گیا ہے اور ان کی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ لیکن امریکی عوام نے جس جرات اور حوصلے کا ثبوت دیا ہے وہ ساری دنیا کے مثال ہے ۔ دنیا بھر کے عوام کو اس بات سے سبق لینا چاہئے کہ طاقتور ترین حکومت کے خلاف بھی آواز بلند کرتے ہوئے دنیا کے سب سے طاقتور اور محفوظ ترین سمجھے جانے والے فرد کو بھی بنکر میں پناہ لینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ۔ امریکہ کے جتنے شہروں میں عوام نے احتجاج کیا تھا وہ بھی مثالی ہے ۔ ایک سیاہ فام باشندے کی موت کے خلاف احتجاج میںنہ صرف سیاہ فام بلکہ ان سے زیادہ انصاف پسند سفید فام باشندوں نے حصہ لیتے ہوئے یہ پیام دینے کی کوشش کی کہ ظلم کے خلاف اور انصاف کے حصول کیلئے لڑائی اور جدوجہد میں رنگ و نسل کو نہیں دیکھا جاسکتا بلکہ انسانیت کو مقدم رکھتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کی جاسکتی اور یہ کی جانی چاہئے ۔
جہاں تک امریکہ کی بات ہے وقفہ وقفہ سے وہاں سیاہ فام باشندوں کے خلاف مظالم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ حکومتیں وقتی طور پر کسی کارروائی یا بیان بازی کے بعد خاموشی اختیار کرلیتی ہیں یا پھر ضابطہ کی تکمیل کی جاتی ہے لیکن اس بار جو احتجاج ہوا اس نے حکومت کو بھی پریشان کردیا تھا ۔ حالانکہ احتجاجیوں کے خلاف طاقت کا استعمال بھی ہوا اور احتجاج کے دوران تشدد بھی ہوا لیکن یہ دونوں باتیں نہیں ہونی چاہئے تھیں۔ نہ مظاہرین کے خلاف تشدد ہونا چاہئے اور نہ مظاہرین کو تشدد کرنا چاہئے ۔ اب جبکہ امریکی عوام نے ساری دنیا کیلئے ایک پیام دیا اورا یک مثال پیش کی ہے تو دنیا بھر کے عوام کو بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور ظلم و ناانصافی کے خلاف احتجاج کے راستہ کو ترک نہیں کرنا چاہئے ۔