امریکہ میں غیر قانونی داخل ہونے کی کوششبھارت کو بدنام کون کررہے ہیں ؟

   

روش کمار
پچھلے چند برسوں کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک کثیر تعداد میں بھارتی باشندے دوسرے ملکوں میں پناہ لے رہے ہیں، اپنے ملک کو خیرباد کہتے ہوئے دوسرے ملکوں کی شہریت حاصل کررہے ہیں ایسے بھارتی شہریوں کی بھی اکثریت ہے جو غیر قانونی طور پر بھی امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور کنیڈا جیسے ملکوں کو منتقل ہورہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اس معاملہ میں بھارتی شہریوں میں ایک جنون سا پیدا ہوا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کے لوگوں کو بھارت سے کسی دوسرے ملک میں دراندازی کرتے ہوئے درانداز بننے کا کیا جنون سوار ہوگیا ہے کہ لوگ کسی طرح اپنی زندگیاں خطرہ میں ڈالکر امریکہ، کنیڈا ، اور یوروپی ملکوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ فرانس میں 276 بھارتی شہریوں کو لیکر دوبئی سے نکاراگوا جارہا ایک چارٹرڈ طیارہ روک لیا گیا، یہ خبر شائع ہوئی تو ضرور مگر اس پر اس طرح تبصرہ نہیں کیا گیا جس طرح کیا جانا تھا اور اس خبر پر چرچا بھی نہیں ہوئی کہ ایک اچھے بھلے ملک کو چھوڑ کر کسی اور ملک میں درانداز بن کر جانے کا یہ کیا طریقہ ہے ؟ کیا بھارت میں اس طیارہ کو پکڑے جانے کے واقعہ پر اس لئے چرچا نہیں ہورہی ہے کہ اس میں سوار 90 سے زیادہ لوگ گجرات کے بتائے جارہے ہیں۔ آخر اس طیارہ میں سوار لوگوں کی تفصیلات منظرِ عام پر کیوں نہیں لائی گئی ؟ ۔ فرانس نے جب اس طیارہ کو ممبئی واپس بھیج دیا تب اس کے مسافرین کو میڈیا کے سامنے کیوں پیش نہیں کیا گیا ؟ اور میڈیا نے ان سے بات کیوں نہیں کی؟۔ یہ ایک طرح کی ایسی بھارت چھوڑو تحریک چل رہی ہے جس پر شائد ہی کوئی بھارتی فخر کرپائے۔ اسی سال کے ماہِ ستمبر میں امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہوئے 8000 سے زائد بھارتی شہری ایک ماہ میں گرفتار ہوئے تھے۔ 8 ہزار لوگوں کی تعداد کم نہیں ہوتی ہے ان میں سے 3 ہزار سے زائد ایسے تھے جو کنیڈا۔ امریکہ سرحد سے دراندازی کرتے ہوئے پکڑے گئے۔
یہ اعداد و شمار امریکہ کے کسٹمس اینڈ ہارڈر پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے ہیں، ان اعداد و شمار کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ امریکہ کی سرحد میں میکسیکو اور کنیڈا سے غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی دھوم مچ گئی ہے۔ ابھی میلہ وہیں لگا ہے جہاں بھارتی شہری بھارت سے گم ہوکر امریکہ میں کھوجانا چاہتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ جب بھارت میں کوئی غیرقانونی طور پر گھس آتا ہے تو اسے درانداز بتانے کی سیاست کتنی خطرناک ہوجاتی ہے یہاں تک کہ جو قانونی طریقہ سے رہ رہا ہے اسے بھی درانداز بتایا جانے لگتا ہے لیکن جب بھارتی شہری کسی دوسرے ملک میں درانداز بن کرجارہے ہیں تو اس خبر پر چرچا کیوں نہیں‘اس پر صرف ویزا ایجنٹ کے فراڈ کا معاملہ کیوں بتایا جاتا ہے۔ کیا یہ غور وفکر کرنے کا وقت نہیں کہ جس وقت بھارت کے وشوا گرو بن جانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے اسی وقت بھارتی شہری کشتیوں سے طیاروں سے اور پیدل امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں وہ بھی غیر قانونی طریقوں سے ۔ ان تمام لوگوں کو بھارت لاکر قوم پرستی کا لیکچر دینا چاہیئے۔ بھارت کے شاندار ماضی کے فخر کے بارے میں ایک سال پڑھایا جانا چاہیئے اور کم از کم ایک سال تک گودی میڈیا کا کوئی چیانل دکھایا جانا چاہیئے۔ انہیں اتنا فخر ہوجائے گا کہ کبھی بھارت چھوڑ کر جانے کا خیال ہی نہیں آئے گا۔
ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ فرانس میں جو طیارہ پکڑا گیا اور جسے واپس بھارت بھیج دیا گیا اس کی کم چرچا اس لئے ہوئی کیونکہ اس میں ایک بڑی تعداد میں گجرات کے لوگ تھے۔ ’ گجرات سماچار‘ کے صفحہ اول پر لکھا ہے کہ فرانس کے ایر پورٹ پر کبوتر بازی کی حیرت زدہ کردینے والی نیوز، امریکہ میں دراندازی کی کوشش، 300 مسافرین میں سے 96 گجراتی پکڑے گئے، زیادہ تر شمالی گجرات کے ہیں، مہسانہ، گاندھی نگر اور نیاس کاتھک سے ان کا تعلق ہے۔ اخبار نے لکھا کہ ان سب کے پیچھے کسی ایمیگریشن مافیا ششی کرن ریڈی کا ہاتھ ہوسکتا ہے، اس نے اب تک 1200 لوگوں کو غیر قانونی طور پر بیرونی ملکوں میں بھیجا ہے۔ ایمیگریشن مافیا ششی ریڈی 30 کروڑ کے چارٹرڈ طیارہ کے ذریعہ نکاراگوا سے میکسیکو اور وہاں سے امریکہ بھیجتا ہے، یہ بھی لکھا ہے کہ اسی طیارہ میں 21 ماہ کا ایک بچہ بھی تھا اور 17 سال کا کشور بھی‘ بہت سے ایسے ہیں جن کے ساتھ ان کے ماں باپ نہیں ہیں۔ ’ گجرات سماچار‘ نے ’دراندازخوری‘ لفظ کا استعمال کیا ہے۔ ہندی کے اخبار غیرقانونی طور پر کسی ملک میں داخل ہونے والے لکھتے ہیں‘ درانداز نہیں لکھتے۔ بھارتی شہریوں کے بارے میں،پنجاب سے ’کبوتر بازی‘ کا لفظ نکلا تو گجرات سے ’درانداز خوری‘ جیسا لفظ نکلا ہے۔ گجرات کے دو بڑے قائدین نریندر مودی اور امیت شاہ کیا بھارت میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کیلئے دراندازی لفظ کا استعمال کرتے ہیں؟ کبھی کبھی دراندازیوں کیلئے دہشت گرد جیسے لفظ کا بھی استعمال ہوتا ہے مگر ان ہی کی ریاست کے لوگ امریکہ میں درانداز بنتے ہیں تب ان کیلئے ’دراندازی خوری‘ جیسے لفظ کا استعمال ہوتا ہے درانداز کا استعمال نہیں ہوا۔
2020 کے بعد کئی ریاستوں کے انتخابات میں ان نیتاؤں (قائدین ) نے اس رجحان کو روکنے پر بہت تقاریر کی لیکن گجرات سے ہی اس سطح کی نقلِ مکانی ہورہی ہے اس پر ان کی کوئی تقریر ملی تو ہمیں بھی سنایئے، ان کے دور میں وہ بھی 20 سال سے زائد کے عرصہ تک ریاست میں اور مرکز میں حکومت کرنے کے بعد بھی گجرات کے لوگ درانداز کیوں بننا چاہتے ہیں؟ یقیناً اس میں دوسری ریاستوں کے لوگ بھی شامل ہیں مگر ہم نے اپنی توجہ گجرات پر مرکوز کی ہے۔ ’ ٹائمس آف انڈیا ‘ نے ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 96 گجراتی مسافر ہیں جن میں سے کئی بھارت واپس ہونا ہی نہیں چاہتے۔ سلول اور مہسانہ کے مسافرین تو واپس ہونا ہی نہیں چاہتے، مہسانہ تو وزیر اعظم نریندر مودی کا آبائی ضلع ہے اور گاندھی نگر سے امیت شاہ رکن پارلیمنٹ ہیں۔ آپ سبھی نے خبر تو دیکھی ہوگی کہ حال ہی میں دوبئی سے ایک چارٹرڈ طیارہ نے پرواز بھری اُس میں 276 بھارتی شہری سوار تھے جب یہ طیارہ شمالی فرانس کے ایک ایرپورٹ پر توقف کیلئے اُترا تب خبریں آنے لگیں کہ اس طیارہ کو روک دیا گیا ہے کیونکہ انسانی اسمگلنگ کا شک ہے۔ ان لوگوں کو نکاراگوا لے جایا جارہا تھا اور وہ وہاں سے امریکہ میں داخل ہونے کا منصوبہ تھا۔ چار دن تک یہ طیارہ فرانس میں ہی کھڑا رہا، ایر پورٹ کو پولیس نے گھیرے میں لے لیا بلکہ Seezed کردیا۔
فرانس کے اخبارLe Moude کے مطابق فرانس کی قومی تحقیقاتی ایجنسی کو تحقیقات کا کام سونپ دیا گیا۔بالاخر فرانس نے طیارہ کو نکارا گوا کیلئے روانہ ہونے نہیں دیا بلکہ وہاں سے اسے ممبئی واپس کیا گیا۔ خبریں تو یہ بھی شائع ہوئی ہیں کہ اس طیارہ میں سوار 276 بھارتی شہریوں میں سے 25 نے واپس آنے سے انکار کردیا، وہ اب بھی فرانس میں ہیں۔ میڈیا رپورٹس میں آیا ہے کہ طیارہ کے ساتھ بھارت واپس نہیں ہوئے لوگوں میں دو نابالغ ہیں جو فرانس میں ہی سیاسی پناہ طلب کررہے ہیں۔ کئی لوگوں کے پاس دوبئی اور نکاراگوا جانے کا ویزا ہے، انہوں نے ایجنٹ کو پیسے بھی دیئے ایسا شبہ ہے کہ یہ لوگ نکاراگوا سے امریکہ میں داخل ہونا چاہتے تھے مابقی مسافرین کو واپس لے کر طیارہ ممبئی آگیا۔ سوال یہ ہے کہ آیا ان کے پاس نکاراگوا جانے کیلئے سیاحتی ویزا نہیں تھا، اگر تھا تو انہیں نکاراگوا کیوں جانے نہیں دیا گیا؟ فرانس کی تحقیقات کی وجہ سے بھارت کی توہین ہونے لگی کیا اسی وجہ سے بھارت نے ممبئی بھیجنے کی مانگ کی یا فرانس نے طئے کرلیا تو بھارت کو قبول کرنا پڑا۔ بھارت نے ایسی پہل کیوں کی ؟ کیا اس لئے بھی کہ اگر نکاراگوا پہنچ کر امریکہ میں داخل ہونے کی یہ لوگ کوشش کرتے تو بہت زیادہ بدنامی ہوتی ؟ کیا بھارت نے اپنی عالمی شبیہہ بچانے کیلئے ایسا کیا؟۔
اس پورے واقعہ سے عالمی سطح پر ہماری شبیہہ بہتر ہوئی ہے یا اسے دھکہ پہنچا ہے آپ خود طئے کریں۔ فرانس سے طیارہ تو واپس آگیا، بھارتی سفارتخانہ نے فرانس کا شکریہ ادا کیا ہے۔ بتایئے کہ اسی فرانس کے صدر 26 جنوری کو بھارت کے مہمان خصوصی بن کر آرہے ہیں ان کے سامنے بھارت کی ترقی کا مظاہرہ کیا جائے گا جبکہ انہیں بھی پتہ ہے کہ بھارت چھوڑ کر امریکہ میں دراندازی کرنے کیلئے اتنے بھارتی شہری بے چین ہیں کہ چارٹرڈ طیارہ لیکر نکارا گوا پہنچ جارہے ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان لوگوں نے لاکھوں کروڑوں روپئے ایجنٹ کو دے دیئے ہوں گے، ان کا پیسہ بھی ڈوب گیا اور بھارت چھوڑنے کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا۔ ’ گجرات سماچار‘ نے لکھا ہے کہ کم از کم جو پیاکیج ہوتا ہے وہ 80 لاکھ سے ایک کروڑ روپئے تک کا ہوتا ہے، اگر 3 لوگوں کا ایک خاندان گیا ہوگا تو کم از کم ان لوگوں نے دو کروڑ روپئے تو ایجنٹ کو دیئے ہوں گے گجرات پر کبھی بات نہیں ہوتی۔ دو، دو کروڑ روپئے دے کر کچھ لوگ درانداز بننا چاہتے ہیں اس پر بات کیوں نہیں ہوسکتی۔ اس کے پیچھے کارفرما وجوہات کو ٹھیک سے کیوں نہیں سمجھا جانا چاہیئے۔ ’ ٹائمس آف انڈیا‘ میں اگسٹ 2022 کے دوران ایک خبر شائع کی گئی تھی جس میں لکھا گیا ہے بیرون ملک جانے کی چکر میں 950 طلبہ نے IELTS کے فرضی سرٹیفکیٹس حاصل کئے ایک سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کیلئے ایک طالب علم نے 14 لاکھ روپئے دیئے۔ گجرات کے تمام شہروں میں 5 سال سے یہ گھوٹالہ چل رہا تھا، یہ تب بے نقاب ہوا ، اور پکڑا گیا جب شمالی گجرات کے کچھ لوگوں ( دراندازیوں ) کو امریکہ کے ایر پورٹ میںانگریزی سے ہندی ترجمہ کی ضرورت پڑ گئی جبکہ IELTS اسکور ان کا ٹھیک ٹھاک تھا، اس طرح سے ان کی پول امریکہ کی کورٹ میں کُھل گئی کہ انہیں انگریزی نہیں آتی، ان کے تمام سرٹیفکیٹس فرضی پائے گئے۔ اگر آپ ان خبروں کو جوڑتے چلیں تو آپ کو وہ گجرات دکھائی دے گا جس کے بارے میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کبھی بات نہیں کرنا چاہیں گے۔ آپ ہی بتایئے کیا اس سے بیرون ملک بھارت کا نام ہوا ؟ آخر کیسے گجرات میں فرضی سرٹیفکیٹس کا دھندہ چل رہا ہے اور ایک طالب علم کو فرضی سرٹیفکیٹ کیلئے 14 لاکھ روپئے دینے پڑ رہے ہیں؟ ان کے پاس پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟ جو لوگ یہ دھندہ کررہے ہیں انہیں کہیں سیاسی تحفظ تو حاصل نہیں؟ ۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ اگر یہ طالب علم سرٹیفکیٹس کیلئے قرض لے رہے ہیں تو انہیں قرض کون دے رہا ہے؟۔