امریکہ ۔ چین تجارتی تنازعہ

   

چین کی تجارت اور اشیاء کی فروخت نے دنیا کے سوپر پاور تصور کئے جانے والے ملک امریکہ کو آج جس حد تک مضطرب کردیا ہے اس کا بیان خود صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حالیہ مخالف چین کارروائیوں سے عیاں ہوتا ہے ۔ صدر ٹرمپ نے چین کے ساتھ اپنی تجارتی جنگ کی مدافعت بھی کی ہے اور اس کشیدگی کو بڑھانے والے اقدامات پر انہیں کسی قسم کا افسوس بھی نہیں ہے ۔ مارکٹوں کو اپنے خسارہ کی فکر ہے ۔ اس لیے انہوں نے صدر چین ژی جن پنگ سے عنقریب ملاقات کرتے ہوئے اس تجارتی جنگ کو ختم کرنے کی کوئی راہ نکالنے کا اشارہ بھی دیا ہے ۔ امریکہ کا اولین ایجنڈہ اونچی شرحوں کی حمایت کرنا ہے ۔ امریکی کمپنیوں کو ان کی تجارت کے راستے چین سے منقطع کرلینے کا مشورہ دینا آسان ضرور ہے مگر اس کے دیرپا نقصانات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ٹرمپ خود ایک دیرینہ کہنہ مشق بزنس مین ہیں وہ اپنے فرمس کے لیے جو بہتر سمجھیں گے کریں گے لیکن امریکہ کی کمپنیوں اور اس کے انتظامیہ کے مسائل پر بھی غور کرنا ان کا بحیثیت صدر فرض بنتا ہے ۔ تجارتی جنگ کو ایک نکتہ پر لے جاکر ختم کرنے کی بات ہورہی تھی لیکن اس جنگ میں اچانک شدت اختیار کر جانا تشویشناک بات ہے ۔ چین کی 200 ارب ڈالر کی مالیت کی مصنوعات پر اضافی محصول عائد کرنے صدر ٹرمپ کا فیصلہ راست طور پر چین کو دھمکی دینے کے مترادف سمجھا جارہا تھا ۔

اس لیے امریکہ اور چین تجارتی جنگ کے فی الفور خاتمہ کے لیے زور دیا گیا ۔ اس سلسلہ میں مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اگر چین کی مصنوعات پر اضافی ٹیکس عائد کیا جائے تو وہ اپنے تجارتی معاہدہ سے دستبردار ہونے پر غور کرے گا ۔ صدر کی حیثیت سے جب سے ٹرمپ نے امریکہ کی باگ ڈور سنبھالی ہے ان کی کارکردگی پر نظر رکھنے والوں نے اس بات کو شدت سے نوٹ کیا ہے کہ امریکہ نے چین پر غیر منصفانہ تجارتی حربے استعمال کئے ہیں ۔ اس لیے چین کو بھی اپنی مصنوعات کو بچانے کے لیے تجارتی محاذ آرائی پر اترنا پڑا ہے ۔ ایک طرف چین اپنے فرمس کو غیر منصفانہ طریقہ سے فائدہ پہونچانے کی معاشی پالیسیاں بنا رہا ہے تو دوسری طرف امریکہ سے تجارتی آنکھ مچولی بھی کھیل رہا ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس طرح کی صورتحال کا اثر راست طور پر شئیر مارکٹ پر بھی پڑ رہا ہے ۔ مالیاتی مارکٹ میں غیر یقینی کے سبب سرمایہ کاروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ان تمام حالات کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے امریکی معاشی ماہرین نے صدر ٹرمپ کو بہتر موقف اختیار کرنے کا مشورہ دیا ۔ ٹرمپ نظم و نسق بھی چین کے ساتھ پیدا ہونے والی تجارتی کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے تو یہ ایک اچھی کوشش ہوگی ۔

چین کے ساتھ ٹرمپ نظم و نسق کی تجارتی کوششوں میں کامیابی امریکی مذاکرات کے طور طریقہ پر ہی منحصر ہے ۔ امریکہ نے شرح محصولات پر یوروپ کے ساتھ بھی بات کی ہے اور کناڈا و میکسیکو کے ساتھ بھی شرح محصولات معاہدہ کے لیے کوشاں ہے ۔ دیگر ممالک بھی امریکہ کے ساتھ تجارتی معاملے میں خوشگوار عمل کو ہی ترجیح دینا چاہتے ہیں لیکن چین نے جو موقف اختیار کیا ہے یا صدر ٹرمپ کے سخت فیصلوں نے تجارتی سرگرمیوں کے رخ کو دوسرا موڑ دیا ہے تو اس سے جو حالات پیدا ہوں گے وہ دونوں کے لیے خسارہ کا باعث ہوں گے ۔ چین اور امریکہ کی اس تجارتی کشیدگی سے دیگر کچھ ممالک بھی راست یا بالواسطہ متاثر بھی ہورہے ہیں ۔ صدر ٹرمپ کو اس سلسلہ میں اپنے ملک کے معاشی ماہرین کے ساتھ مشاورت کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ کسی بھی ملک کا دوسرے ملک کے ساتھ تجارتی تنازعہ عالمی معیشت کے لیے بھی ٹھیک نہیں سمجھا جائے گا ۔۔