انتخابات اور بی جے پی کے دعوے

   

ہر گام اندھیرے ہیں اب صبح کی صورت کیا ہوگی
یہ دور قیامت کیا کم ہے اب اور قیامت کیا ہوگی
جیسے جیسے ملک میں پارلیمانی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے ملک کا ماحول متاثر ہوتا جا رہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی ایک شطرنج کی بساط بچھاتے ہوئے انتخابی عمل کو اپنے انداز سے پورا کرنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ابھی سے اپنی اور اپوزیشن کی نشستوں کی تعداد کا بھی تعین کرنے سے باز نہیں آ رہی ہے ۔ بی جے پی کے مختلف قائدین کا دعوی ہے کہ اس پارٹی کو آئندہ پارلیمانی انتخابات میں 400 نشستیں حاصل ہونگی ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کا دعوی ہے کہ بی جے پی نے چونکہ ملک میں دفعہ 370 کو برخواست کیا ہے اس لئے اسے انتخابات میں 370 نشستیں حاصل ہونگی ۔ بی جے پی قیادت والے این ڈی اے اتحاد کو چار سو سے زیادہ نشستیں حاصل ہونگی ۔ جس طرح سے بی جے پی اپوزیشن جماعتوں کو انتشار کا شکار کرتی جا رہی ہے اور ان میں پھوٹ اور انحراف کی حوصلہ افزائی کرتی جا رہی ہے اس سے پارٹی کو امید ہے کہ اس کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوگی ۔ انتخابی نتائج کیا کچھ ہونگے یہ ابھی سے کہا نہیں جاسکتا تاہم اپوزیشن کی صفوں میں جو انتشار پیدا کیا جا رہا ہے وہ بی جے پی سمجھتی ہے کہ اس کیلئے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے ۔ تاہم نشستوں کی تعداد کے تعلق سے جو دعوے کئے جا رہے ہیں وہ انتخابی عمل اور جمہوری عمل پرسوال پیدا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ حالانکہ یہ بات قطعیت سے دعوی کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ ملک میں انتخابی عمل دھاندلیوں کا شکار ہے اور ووٹنگ مشینوں میں الٹ پھیر کیا جاسکتا ہے لیکن بی جے پی اور اس کے قائدین کے دعووں سے اندیشے اور شبہات پیدا ہونے لگے ہیں۔ بی جے پی کے کئی قائدین مختلف مواقع پر اس تعلق سے مختلف بیانات دے چکے ہیں۔ تلنگانہ میں بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ نے عوامی اجلاس میں کہا تھا کہ آپ چاہے جس کسی کو ووٹ دیں آئیگا تو مودی ہی ۔ اس کے علاوہ گذشتہ دنوں یہ انکشاف بھی ہوا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین تیار کرنے والی کمپنی کے چار ڈائرکٹرس کا بی جے پی سے تعلق ہے بلکہ وہ بی جے پی قائدین ہیں۔ ایسی صورتحال میں کچھ گوشوں کو جو شبہات ہیں اور جو اندیشے پیدا ہوئے ہیں ان کا ازالہ کرنا بھی حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ۔ جو شبہات ہیں ان کی حقیقت تک پہونچنے کی ضرورت ہے تاکہ جمہوری ملک میں جمہوری عمل پر عوام کو شبہات نہ رہنے پائیں۔
بی جے پی کسی ایک پہلو پر تو کرنے پر اکتفاء نہیں کر رہی ہے ۔ انتخابات سے قبل ساری سرکاری مشنری کو ایک طرح سے انتخابی عمل کا حصہ بنادیا گیا ہے ۔ تعمیر کی تکمیل سے قبل ہی صرف ایک حصہ کو مکمل کرتے ہوئے رام مندر کا افتتاح کروانا ۔ گیان واپی مسجد اور شاہی عید گاہ کے مسئلہ کو ہوا دینا بھی بی جے پی کے انتخابی منصوبوں کا ہی حصہ ہے ۔ بی جے پی ان مسائل سے بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے متاثر ہونے کی کوئی پرواہ نہیں کی جا رہی ہے ۔ عوام کیلئے کئے گئے کاموں اور ترقیاتی منصوبوںکو پیش کرتے ہوئے تائید اور ووٹ حاصل کرنے کی بجائے مذہبی بنیادوں پر کامیابی حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ اپوزیشن کی صفوں میں انحراف اور پھوٹ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس کے امکانات کو متاثر کیا جا رہا ہے ۔ اخلاقیات اور اقدار کو پامال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کے بیجا استعمال کے الزامات تو عام ہوگئے ہیں۔ مخالف جماعتوںاور قائدین کو دھمکانے اور خوفزدہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی جا رہی ہے ۔ اس کے ذریعہ بھی سیاسی فائدہ حاصل کیا جا رہا ہے ۔ جو قائدین اور جماعتیں ایسے حربوں سے خوفزدہ ہو رہی ہیں اور بی جے پی کا ساتھ دینے آمادہ ہو رہی ہیں ان کے خلاف تحقیقات کو برفدان کی نذر کیا جا رہا ہے ۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب ہزاروں کروڑ کے کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے قائدین بی جے پی کی پناہ میں آگئے تو ان کے خلاف مقدمات پر خاموشی اختیار کرلی گئی اور تحقیقات کو آگے بڑھانے سے گریز کیا گیا ہے ۔
بی جے پی اپنی کامیابیوں کے تعلق سے جو دعوے کر رہی ہے ایسا کرنے کا اسے پورا سیاسی حق حاصل ہے تاہم جو حالات پیدا کئے جا رہے ہیں ان کی وجہ سے شبہات پیدا ہونے لگے ہیں اور ملک کی سب سے بڑی اور برسر اقتدار پارٹی ہونے کے ناطے ان شبہات اور اندیشوں کو دور کرنا بھی بی جے پی کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ اقتدار کیلئے جمہوری عمل کو مذاق نہیں بنایا جانا چاہئے اور نہ ہی اس عمل کو کھوکھلا کیا جانا چاہئے ۔ جمہوریت ہندوستانی سیاست کی بنیاد ہے اور اگر اس بنیاد ہی کو کمزور کردیا گیا تو یہ ملک کے مفاد میں ہرگز نہیں ہوگا ۔ ابھی انتخابات کا بگل بجا نہیں ہے اور اس سے قبل ہی جو حالات پیدا کئے جا رہے ہیں ان کو بھی نظر میں رکھنے کی ضرورت ہوگی اور ملک کے سارے عوام کو اپنی ذمہ داری کو بھی محسوس کرنا ہوگا ۔
آندھرا پردیش کا سیاسی منظر نامہ
پڑوسی تلگو ریاست آندھرا پردیش کی سیاست میں تیز رفتار تبدیلیاں پیدا ہونے لگی ہیں۔ ریاست میں برسر اقتدار وائی ایس آر کانگریس اور اپوزیشن تلگودیشم پارٹی دونوں ہی بی جے پی کا دامن تھامنے کیلئے بے چین نظر آتے ہیں۔ ایک دوسرے پر سبقت لیجانا چاہتے ہیں۔ تلگودیشم سربراہ چندرا بابو نائیڈو کی بی جے پی صدر جے پی نڈا اور وزیرداخلہ امیت شاہ سے ملاقات کے دوسرے ہی دن چیف منسٹر جگن موہن ریڈی وزیر اعظم مودی سے ملاقات کیلئے پہونچ گئے ۔ بی جے پی دونوں ہی جماعتوں کے امکانات کا جائزہ لینے میں مصروف ہے اور کسی بھی جماعت سے اتحاد اپنے فائدہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی کیا جائیگا ۔ آندھرا پردیش میں دونوں ہی جماعتوں وائی ایس آر کانگریس اور تلگو دیشم کو خود اپنی سیاست پر بھروسہ نہیں رہ گیا ہے اور وہ بی جے پی کی مدد سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو فراموش کرچکے ہیں کہ جنوبی ہند میں بی جے پی کمزور ہے اور وہ علاقائی جماعتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے قدم جمانا چاہتی ہے ۔ تیز رفتار تبدیلیوں کے ساتھ بی جے پی حالات پر اپنی گرفت بنانے میں مصروف ہے اور دونوں جماعتیں بی جے پی کا کھلونا بنتی نظر آ رہی ہیں۔