انتخابات اور مسلم نمائندگی

   

ہم اجنبی سے لگتے ہیں اپنے ہی مکاں میں
ہم کو در و دیوار بھی اب بھول گئے ہیں
ملک میں پارلیمانی انتخابات کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔ ویسے تو سیاسی جماعتوں کی جانب سے گذشتہ تین ماہ سے ہی تیاریاں شروع کردی گئی تھیں اوردر پردہ مصروفیات کا آغاز ہوگیا تھا تاہم الیکشن کمیشن نے انتخابی اعلامیہ جاری کردیا ہے جس کے بعد سرگرمیوںمیںاضافہ ہوگیا ہے ۔برسر اقتدار بی جے پی ہو یا دیگر اپوزیشن جماعتیں ہوں سبھی اب اپنے اپنے منصوبوں کے مطابق امیدواروں کا انتخاب کرنے میں مصروف ہیں۔ امیدواروں کو ان کی کامیابی کی صلاحیت یا پھر ان کی دولت اور طاقت کے علاوہ ان کی ذات پات کی بنیاد پر مقابلہ کیلئے موقع دیا جا رہا ہے ۔ ملک کی بے شمار ریاستیں ایسی ہیںجہاں ذات پات کو بہت زیادہ ترجے دی جاتی ہے ۔ ایک مذہب کے ماننے والے رہنے کے باوجود ذات پات اور ادنی و اعلی کے فرق کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے کئی فیصلے بھی اسی بنیاد پر اور اس کی مطابقت میں کئے جاتے ہیں۔ حکومت کی اسکیموں کو بھی ذات پات کی اہمیت کو ایک واضح مقام دیا جاتا ہے اور اس کے مطابق اسکیمات بھی تیار ہوتی ہیں ۔ تاہم سب سے اہم بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ گذشتہ ایک دہے سے یا اس سے بھی کچھ وقت پہلے سے مسلم نمائندگی کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کا جہاں تک سوال ہے تو اس نے تو علی الاعلان مسلم امیدواروں کے انتخاب سے گریز کیا ہے ۔ حالانکہ کئی مواقع پر وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر یا ذات پات کی بنیاد پر پارٹی ٹکٹ نہیں دئے جاتے بلکہ کامیابی کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے امیدواروں کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔ یہ ایک بے بنیاد اورکھوکھلا عذر ہے جو بی جے پی پیش کرتی رہی ہے ۔ ملک کی بے شمار ریاستوں میں اقتدار پر رہتے ہوئے بی جے پی کسی کو بھی کامیابی دلا رہی ہے یا پھر ناکام بنانے کیلئے بھی حربے استعمال کئے جا رہے ہیں اور جہاں مسلمانوں کو پارٹی ٹکٹ دینے کی بات آتی ہے تو کامیابی کی اہلیت کا عذر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ایک عام تاثر یہی ہے کہ بی جے پی نہیںچاہتی کہ مسلم امیدواروںکو پیش کرتے ہوئے کٹر ہندو ووٹ بینک کو ناراض کردیا جائے ۔
جہاں تک بی جے پی کی بات ہے تو سب پر عیاں ہے کہ وہ مسلمانوں سے بیزاری کا کھلے عام اظہار کرتی ہے ۔ تاہم دوسری جماعتوں کو چاہئے کہ وہ سماج کی دوسری سب سے بڑی اکثریت مسلمانوں کیلئے انتخابی میدان میں مواقع فراہم کرنے کو ترجیح دی اور جہاں کہیں ضروری اور ممکن ہوسکے وہاںمسلمان امیدوار کو کامیاب بنانے کیلئے حکمت عملی اختیار کی جائے منصوبہ بندی کی جائے اور سماج کے دیگر طبقات کو بھی مسلم امیدوار کو کامیاب بنانے کیلئے ہم خْال بنانے پر توجہ دی جائے ۔ دیکھا یہی جا رہا ہے کہ کئی سیاسی جماعتیں ہیں جو مسلم امیدوار کو پیش کرنے سے گریز کر تی ہیں اور ان کی کامیابی کی اہلیت پر سوال اٹھاتی ہیں۔ یہ اہلیت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب انہیں موقع دیا جائے ۔ سیاسی جماعتوں کی خود بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر کسی مسلم امیدوار کے امکانات کم ہیںتو اپنے کیڈر اور اپنے قائدین کو وہاں جھونک دیا جائے ۔ سبھی کی طاقت کو استعمال کیا جائے ۔ سماج کے تمام طبقات کو اپنا ہمنواء اور ہم خیال بنانے کیلئے کام کیا جائے تاکہ مسلم امیدوار کو کامیاب بنایا جاسکے ۔ بے شمار حلقے ایسے ہیں جہاں غیر مسلم امیدواروں میں ووٹ تقسیم ہوجاتا ہے اور مسلم ووٹ فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ وہاں مسلمان ‘ غیر مسلم امیدوار کے حق میں ضرور ووٹ دیتے ہیں جو انہیں بہتر لگتا ہے ۔ ایسے میں غیر مسلم ووٹرس میں بھی یہ مہم چلانے کی ضرورت ہے کہ وہ جہاں کہیں ممکن ہوسکے مسلم امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈال کر ان کے انتخاب کی راہ ہموار کریں۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے مسلمانوں کو ووٹ بینک کی طرح استعمال کرنے کا سلسلہ رکنا چاہئے ۔ دیکھا جا رہا ہے کہ ہر پارلیمنٹ میں مسلم نمائندگی میں کمی ہوتی جا رہی ہے ۔ کئی ریاستی اسمبلیاں بھی ایسی ہیں جہاں بتدریج مسلم ارکان کی تعداد گھٹ رہی ہے ۔ یہ صورتحال ملک میں مساوات کو فروغ دینے میں معاون ہرگز نہیںہوسکتی ۔ سیاسی جماعتیں اگر مسلمانوں کے ووٹ کی خواہشمند ہیں تو پھر انہیں مواقع بھی دینے چاہئیں۔ جس طرح ذات پات کی بنیاد پر دوسروں کو موقع دیا جاتا ہے اسی طرح مسلمانو ںکوبھی موقع دیا جانا چاہئے اور ان کے انتخاب کو یقینی بنایا جانا چاہئے تاکہ قانون ساز اداروں میں بھی توازن برقرار رہ سکے ۔