انتخابات اور مودی کی گیارنٹی

   

انتخابات کے دوران مختلف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عوام کیلئے مفت سہولیات کی فراہمی کو ’ ریوڑی ‘ کلچر قرار دینے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اب بی جے پی کو بھی یہ احساس ہوگیا ہے کہ بغیر عوامی سہولیات کی فراہمی کے عوام کے ووٹ حاصل کرنا ممکن نہیں رہ گیا ہے ۔صرف مفت راشن اور مندر درشن کے ذریعہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں ہے ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ دوسری جماعتوں کی طرح خود بی جے پی بھی مفت کی سہولیات کا اعلان کرے ۔ اسی وجہ سے بی جے پی کی جانب سے حالانکہ مفت رقومات کی فراہمی وغیرہ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے لیکن کچھ ریاستوں میں عوام کے موڈ کو دیکھتے ہوئے کچھ اعلانات ضرور کئے گئے ہیں۔ ان اعلانات کو وزیر اعظم مودی کی ضمانت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اوریہ وعدے کئے جا رہے ہیں کہ انتخابی عمل کے بعد اگر بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوتا ہے تو عوام کیلئے کئی اقدامات کا آغاز کیا جائیگا اور جو اپوزیشن حکمران بدعنوانیوں میں ملوث ہیں انہیں جیل بھیج دیا جائیگا ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ ملک کے عوام مودی کی ضمانتوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ خاص طور پر خواتین میں نریندر مودی کی تقاریر کا اثر کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ آج ضمانتوںکا اعلان کرنے والے نریندرمودی نے 2014 سے قبل انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہوئے ہر شہری کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کروانے کا وعدہ کیا تھا ۔ سالانہ دو کروڑ روزگار اور نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ نہ کسی شہری کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپئے جمع کئے گئے اور نہ ہی سرکاری ملازمتیں فراہم کی گئیں۔ اس کے برخلاف سرکاری اداروں کو بھی اپنے حاشیہ بردار صنعتکاروں کو سونپتے ہوئے سرکاری ملازمتوں کے امکانات ہی کو ختم کردیا گیا ۔ اسی طرح وزیر اعظم نے بیرونی ممالک سے کالا دھن واپس لانے کا وعدہ کیا تھا ۔ آج صورتحال اس کے برعکس ہے ۔ ماضی کی بہ نسبت مزید زائد ہندوستانی پیسہ بیرونی ممالک کے بینکوں میں پہونچ گیا ہے ۔ نریندر مودی نے ان ضمانتوں کو ہی فراموش کردیا ہے اور اب نئی ضمانت کی بات کر رہے ہیں جو قابل یقین نہیں ہے ۔
جن ریاستوں میں اب تک پولنگ ہوچکی ہے ان میں میزورم ‘ چھتیس گڑھ ‘ مدھیہ پردیش اور راجستھان شامل ہیں جبکہ اب 30 نومبر کو سب سے آخر میں تلنگانہ میں ووٹ ڈالے جانے ہیں۔ وزیر اعظم ان ریاستوں میں انتخابی مہم میں حصہ لے چکے ہیں اور تلنگانہ میں بھی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ تاہم یہ بات ضرور محسوس کی جا رہی ہے کہ انہوں نے اس بار اتنی شدت اور جو ش و خروش کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا جتنی شدت سے وہ اکثر لیا کرتے تھے ۔ یہ بھی ایک اشارہ ہے کہ ان کی عوامی مقبولیت کا گراف کم ہوا ہے اور لوگ ان کے وعدوں پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ جو اندھ بھکت ہیں ان کی بات تو خیر کیا کی جائے لیکن جہاں تک غیر جانبدار عوام اور رائے دہندوں کا سوال ہے تو وہ کانگریس اور دوسری جماعتوں کی جانب سے ہونے والے اعلانات پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ کانگریس نے اپنے اقتدار والی ریاستوں میں یہ ان ضمانتوں پر عمل آوری کا آغاز کردیا ہے ۔ راجستھان وغیرہ میں 500 روپئے میں گیس سلینڈر فراہم کرنے کا آغاز ہوچکا ہے اور دوسری سہولیات بھی عوام تک پہونچنے لگی ہیں۔ ان ریاستوں کا اثر دوسری ریاستوں پر بھی پڑنے لگا ہے اور لوگ نریندر مودی کے اعلانات پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہیں۔ بی جے پی نے مدھیہ پردیش و راجستھان میں سستے داموں میں گیاس سلینڈر فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن عوام سوال کر رہے ہیںکہ بی جے پی سارے ملک میں ایسا کیوں نہیں کرتی ۔
بی جے پیعوام کو گمراہ کرنے کیلئے اس طرح کے اعلانات کر رہی ہے اور دلچسپ بات یہ یہ کہ یہ اعلانات کسی اور تک محدود نہیں ہیں بلکہ خود وزیر اعظم بھی ایسے اعلانات کر رہے ہیں۔ عوام میں یہ سوال ہو رہا ہے کہ وزیر اعظم صرف انتخابی ریاستوں تک اس طرح کے اعلانات کیوں کر رہے ہیں۔ وہ سارے ملک کے وزیر اعظم ہیں اور انہیں اگر کچھ اہم اشیا کے دام کم کرنے ہیں تو سارے ملک میں کئے جانے چاہئیں۔ ہر ریاست کیلئے علیحدہ پالیسی کیوں اختیار کی جا رہی ہے ؟ ۔ عوام میں یہ تاثر عام ہوچکا ہے کہ اب مودی کے وعدوں پر یقین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انتخابات کے بعد جملہ قرار دے کر انہیں بھی فراموش کردیا جائیگا ۔