انتخابات ‘ جنوبی ہند اور بی جے پی

   

دور حاضر کی دیانت کا بھروسہ نہ کرو
لوگ ہوجاتے ہیں تقسیم حسابوں کی طرح
ویسے تو ہندوستان میں ہر بار ہونے والے انتخابات اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے ملک کی سیاست پر اثرات بھی اکثر و بیشتر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابی عمل کی بھی اپنی اہمیت ہوا کرتی ہے جس کے بعد سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی کو قطعیت دی جاتی ہے ۔ تاہم پارلیمانی انتخابات کی اہمیت ہمیشہ مسلمہ ہوتی ہے ۔ اس بار 2024 کے جو پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں ان کی اہمیت اب تک کے تمام انتخابات سے بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔ بی جے پی جس طرح سے گذشتہ دس برسوں میں ہندوستانی سیاسی نظام پر اپنی اجارہ داری قائم کرچکی ہے اس کو دیکھتے ہوئے اس کا دعوی ہے کہ وہ اس بار 400 لوک سبھا نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی ۔ حالانکہ بی جے پی کے اس دعوے کی حیثیت صرف سیاسی دعوی کی طرح ہے اور یہ بھی ایک انتخابی جملہ ہوسکتا ہے لیکن ملک میں جو حالات پیدا کردئے گئے ہیں اور جس طرح سے ہر دستوری اور اہمیت کے حامل اداروں پر اپنے تسلط کو یقینی بنایا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ دعوی سے کہا جاسکتا ہے کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات کی اہمیت اب تک کے تمام پارلیمانی انتخابات سے زیادہ ہوگئی ہے ۔ جو آثار و قرائن سے اندازے ہو رہے ہیں ان کے مطابق بی جے پی کو اپنی مقبولیت والی ریاستوں میںمشکل صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے ۔ اترپردیش جیسی ریاست میں بھی بی جے پی کو اپنی تعداد گھٹنے کے اندیشے لاحق ہوگئے ہیں حالانکہ پارٹی یہاں پہلے سے زیادہ کامیابی کا دعوی کر رہی ہے لیکن اس کے دعووں کی حقیقت سے وہ خود اور عوام بھی اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔ اسی طرح مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ ہریانہ اور دہلی کے علاوہ بہار اور مہاراشٹرا جیسی ریاست میں بھی پارٹی کو امیدوں سے کم نشستیں مل سکتی ہیں۔ مغربی بنگال میں بھی پارٹی کے دعووں سے قطع نظر صورتحال مختلف ہوسکتی ہے ۔ ایسے میں بی جے پی نے شمالی ہند میں جو امکانات نقصانات کے اندیشے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے جنوبی ہند سے یہ نقصان پورا کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ حالانکہ جتنا بھاری نقصان بی جے پی کو شمالی ہند میں ہوسکتا ہے اس کا ازالہ جنوب سے ممکن نہیں ہے ۔
جنوبی ہند بی جے پی کیلئے ہمیشہ ایک مشکل علاقہ رہا ہے ۔ یہاں بی جے پی کو اپنے وجود کا احساس دلانے میں بھی مشکلات پیش آئیںہیں۔ صرف کرناٹک ایسی ریاست ہے جہاں سے بی جے پی کو سہارا ملا تھا ۔ تاہم اس بار بی جے پی کو کرناٹک میں بھی 15 تا 20 نشستوں کے نقصان کا اندازہ لگایا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی آندھرا پردیش ‘ ٹاملناڈو ‘ کیرالا اور تلنگانہ پر بھی خاص توجہ دے رہی ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ یہاںسے زیادہ نشستیں حاصل کی جائیں۔ کیرالا ‘ اور ٹاملناڈو میں بی جے پی اب تک کوئی کھاتہ نہیںکھول پائی ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ یہاں بھی اسے سیاسی طور پر قدم جمانے کا موقع مل جائے ۔ آندھرا پردیش میںاس نے چندرا بابو نائیڈو اور پون کلیان کی صورت میںسہارا ڈھونڈ لیا ہے ۔ تلنگانہ میں حالانکہ بلند بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں لیکن صورتحال پارٹی کیلئے یہاں بھی سازگار نظر نہیںآتی ۔ بی جے پی کی جنوب پر ضرورت سے زیادہ توجہ نے ہی یہ واضح کردیا ہے کہ اسے شمال میں نقصان کا سامنا ہورہا ہے ۔ موجودہ صورتحال میں جنوبی ہند کے رائے دہندوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ حالات کی اہمیت اور موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انتہائی سمجھداری اور فہم و فراست کے ذریعہ اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ شمال میں پارٹی نے جس طرح کا ماحول پیدا کردیا ہے جنوب میں اس طرح کے ماحول کی کوئی گنجائش نہیںہونی چاہئے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی و گنگا ۔ جمنی تہذیب کی روایت کو برقرار رکھا جانا چاہئے ۔
موجودہ حالات اور بی جے پی کے منصوبوں و جنوبی ہند پر خاص توجہ یا انحصار کی صورت میں اقلیتوں کی سیاسی فہم و فراست بہت زیادہ ضروری ہوگئی ہے ۔ اقلیتوں کو پوری سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجتماعی اور متحدہ طور پر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے ۔ اس کے علاوہ اپنے ووٹنگ تناسب میں بھی اضافہ کرنے پر توجہ دینی چاہئے ۔ ووٹ ہمارا دستوری حق ہے اور اس کا استعمال کرتے ہوئے ہم اپنی سیاسی اہمیت کو منوا سکتے ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینے اور ملک کے امن و امان کو یقینی بنانے کیلئے اقلیتوں کو اپنے ووٹ کے ذریعہ اپنی ذمہ داری کو نبھانا چاہئے اور غفلت و لاپرواہی سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔