انتخابات سے قبل سیاسی حربے

   

ہر اک موسم گزرتا جارہا ہے
یہ دریا ہے بہتا جارہا ہے
ویسے تو جب کبھی ملک میں یا کسی ریاستمیں انتخابات کا موسم آتا ہے مختلف جماعتوں کی جانب سے مختلف سیاسی حربے اختیار کئے جاتے ہیں۔ ان سارے حربوں کا مقصد عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے انہیں اپنی تائید کیلئے تیار کرنا اور ان کے ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ کچھ قائدین کی جانب سے سیاسی جماعتوں سے وابستگی کو ختم کرتے ہوئے دوسری جماعتوںمیںشمولیت اختیار کی جاتی ہے ۔ ایک جماعت کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہنے اور اس کے عیب گنوانے کے بعد اچانک ہی اسی جماعت میںشمولیت اختیار کرلی جاتی ہے اور جس جماعت کے گن گائے جاتے رہے ہوں ان کے عیب گنانے شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ کسی نظریہ اور جماعت یا سیاسی اصولوںسے وابستگی کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ سراسر سیاسی فائدہ اور نقصان کیلئے ہوتا ہے ۔ یہ ہمیشہ کی روایت رہی ہے ۔ ہر انتخابات میں انحراف کا موسم عروج پر ہوتا ہے ۔ اب جبکہ ملک میں پارلیمانی انتخابات کا موسم چل رہا ہے اور نامزدگیوںکاادخال شروع ہوگیا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ایک باضابطہ مہم اور منظم انداز میںمخالفین حکومت یا اپوزیشن جماعتوںکو نشانہ بنانے کا عمل شروع کردیا گیا ہے ۔ کئی قائدین جو اپنی اپنی جماعت میںاپنی امیدیں پوری نہ ہونے سے ناراض رہتے ہیں انہیں لالچ دے کر یا پھر کسی اور طریقہ سے اپنا ہمنواء بنالیا جاتا ہے ۔ ان قائدین کو بھی محض عوامی حلقوں میں بنے رہنا ہوتا ہے اور اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کرنی ہوتی ہے اسی لئے وہ بھی اپنی وابستگیوں کی پرواہ کئے بغیر ایک سے دوسری جماعت میںشمولیت سے گریز نہیںکرتے ۔ ان کے پاس کسی جماعت کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہنے کے بعد اچانک ہی اس کی تائید کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا اور نہ ہی مسلسل تائید و مدافعت کے بعد اچانک ہی اسے تنقید کا نشانہ بنانے کی بھی کوئی وجہ نہیںرہتی ۔ یہ لوگ محض اپنے ذاتی فائدہ اور مفادات کی تکمیل کیلئے سیاسی جماعتوںسے وابستہ رہتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر تائیدو حمایت کی جاتی ہے اور اسی کی بنیاد پر مخالفت بھی کی جاتی ہے ۔ نظریات یا نظریاتی سیاست کے دن ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کی سیاست میں کم ہوگئے ہیں اور محض موقع پرستی اور مفادات کی تکمیل کی سیاست کو ہی اب عروج حاصل ہوتا جا رہا ہے ۔
انتخابات کے موسم کے عروج پر پہونچنے سے قبل ہی سیاسی انحراف کا موسم عروج پر پہونچ گیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی جانب سے اب تک کئی علاقائی اور مقامی جماعتوںکو ختم کرنے کے بعد کانگریس کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔ کانگریس قائدین کے خلاف عدالتی کشاکش اور مقدمات کے دریعہ شائد بی جے پی کے منصوبے پورے نہیں ہوئے ہیںاسی لئے اب سیاسی اعتبار سے کانگریس کو متاثر کرنے اور اسے گزند پہونچانے کی مہم شروع کی گئی ہے ۔ یکے بعد دیگرے کانگریس قائدین اور ترجمانوں کو پارٹی سے انحراف کیلئے اکساتے ہوئے اپنی صفوںمیںشامل کیا جا رہا ہے ۔ ان میں وہ کچھ قائدین بھی شامل ہیں جو حالانکہ کانگریس کی وجہ سے سیاسی شناخت بنا پائے تھے اور انہیں کانگریس نے انتخابات میںمقابلہ کا موقع بھی دیا تھا لیکن وہ اسمبلی کی نشست کیلئے بھی جیت درج نہیںکروا پائے تھے ۔ یہی قائدین دوبارہ لوک سبھا کی رکنیت کیلئے مقابلہ کرنا چاہتے تھے ۔ ان کے خیال میں دوسروں کو اس کیلئے موقع دینا درست نہیں ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ کئی قائدین کی امیدیں پوری نہیں ہوتیں۔ انہیں بسا اوقات موقع نہیں مل پاتا ۔ اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ انتظار کریں ۔ کسی اور مناسب وقت پر سیاسی قائدین کو اپنی اپنی جماعتوں کی جانب سے ضرور موقع مل سکتا ہے ۔
آج کل کے جو سیاسی قائدین ہیں پارٹی کے موقف اور حالات کی بجائے ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے زیادہ بے چین رہتے ہیںاسی لئے انحراف کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ بات صرف کانگریس تک محدود ہے ۔ کئی دوسری جماعتوں کے ساتھ بھی یہی صورتحال لاحق ہوئی ہے ۔ بی جے پی بھی اس صورتحال سے محفوظ نہیں ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ مرکز اور کئی ریاستوں میںاقتدار رہنے کی وجہ سے اسے بہت کم اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جو قائدین کسی سیاسی اصول اور نظریہ کے تابع اور پابند نہیں ہوتے ان کی کسی بھی جماعت سے وابستگی پر کامل یقین نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ کسی بھی وقت کسی کے ساتھ بھی دغا کرسکتے ہیں۔