انتخابات سے قبل مخصوص حربے

   

ملک میں انتخابات کا وقت ایک بار پھر قریب آتا جا رہا ہے ۔ اس بار پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں جوسب سے اہمیت کے حامل ہیں اور ان کے ذریعہ ملک میں آئندہ پانچ سال کیلئے حکومت کا قیام عمل میںآئیگا ۔ بی جے پی لگاتار تیسری معیاد کیلئے مرکز میںا قتدار برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہی ہے تو اپوزیشن جماعتیں بی جے پی کو دو معیادوں کے بعد اقتدار سے بیدخل کرنے کی حکمت عملی بنانے میںمصروف ہیں۔ ایسے میں بی جے پی کی ہم قبیل تنظیمیں مخصوص حربے استعمال کرتے ہوئے ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوششیںتیز کرچکی ہیں۔ ہندوتوا کے نام پر ملک کا ماحول خراب کیا جا رہا ہے ۔ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے تعلق سے ابنائے وطن میں نفرت پیدا کی جا رہی ہے ۔ انہیں حاشیہ پر لانے کی مہم شروع کردی گئی ہے ۔ لو جہاد کا نعرہ دیتے ہوئے اکسایا جا رہا ہے ۔ ہندو راشٹر بنانے کیلئے مسلمانوں کے خلاف مہم چلانے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ۔ مختلف مقامات پر مختلف ناموں سے پروگرامس منعقد کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی اور اشتعال انگیز بیان بازیوں کے سلسلے جاری ہیں۔ ملک کی کئی ریاستوں میں کئی تنظیموںاور گوشوں کی جانب سے انتہائی منظم انداز میں یہ مہم چلائی جارہی ہے ۔ حالانکہ سپریم کورٹ کی ہدایات موجود ہیں کہ نفرت پھیلانے اور اشتعال انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کئی ریاستوں میں حکام اور انتظامیہ کی جانب سے ان احکام پر کوئی عمل نہیں کیا جا رہا ہے ۔ نفرت پھیلانے والوں کے خلاف خاموشی اختیار کی جا رہی ہے اور اس سے نفرت پھیلانے والے عناصر کی بالواسطہ طورپر حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ۔ ان ساری کوششوںکا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے لیکن اس بات کا خیال نہیں کیا جا رہا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ملک کا ماحول متاثر ہو رہا ہے ۔ سماج کے دو بڑے اور اہم طبقات کے مابین نفرتیں پھیل رہی ہیں اور اس کے اثرات دوسرے شعبہ جات پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ ملک کے مفاد میں ہوسکتی ہے اور نہ ہی ملک کے عوام کے حق میں بہتر کہی جاسکتی ہے ۔
ہندو جن جاگرتی سمیتی ہو یا پھر اسی طرح کی کئی دوسری تنظیمیں ہوں یہ سبھی سرگرم ہوگئی ہیں اور لگاتار نفرت کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ کئی طرح کے پروگرامس منعقد کرتے ہوئے ایسے مقررین کو مدعو کیا جا رہا ہے جو مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں اور کھلے عام دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ ملک کے سکیولر کردار کو بدلتے ہوئے ہندو راشٹر بنانے کی بات کی جاتی ہے ۔ یہ اعلانات دستور کے مغائر ہیں ۔ اس کے باوجود ایسا عناصر کے خلاف اور ایسے مقررین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ ان کے تعلق سے خاموشی اختیار کرتے ہوئے انہیں زہر افشانی کا پورا موقع فراہم کیا جا رہا ہے ۔ ملک کا ماحو ل پراگندہ ہو رہا ہے لیکن حکام اور انتظامیہ اس پر حرکت میں آنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور اپنی خاموشی اور تساہل یا مجرمانہ غفلت کے ذریعہ ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ حکومتوں کے ذمہ داران بھی اس معاملے میں برابر کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ بھی اس طرح کے معاملات کا نہ از خود نوٹ لے رہے ہیں اور نہ کسی گوشے کی جانب سے توجہ دلائے جانے پر کوئی کارروائی کر رہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومتوں کے ذمہ داران خود چاہتے ہیں کہ ملک میں اس طرح کا ماحول پیدا کیا جائے تاکہ اس کا سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے ۔ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے ملک کے پرامن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی والے ماحول کو متاثر کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جن کو برداشت نہیں کیا جانا چاہئے اور ایسی کوششوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے ۔
نفاذ قانون کی ایجنسیوں اور پولیس کو اس معاملے میں چوکسی برتنے کی ضرورت ہے تاکہ منفی عزائم رکھنے والے جنونی کیفیت کا شکار عناصر اپنے عزائم میںکامیاب ہونے نہ پائیں اور اس کے اثرات سماج اور عوام پر مرتب نہ ہوسکیں۔ اس کے علاوہ مختلف عوامی اور سماجی تنظیموںاور اداروں کو بھی اس معاملے میں اپنا رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ دستوری اور قانونی حدود کے دائرہ میںرہتے ہوئے ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کیلئے ہر صحیح الفکر گوشے کو اپنا رول ادا کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ ایسی منفی مہم کے ذریعہ کسی کو بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا موقع نہ مل پائے ۔