انتخابات ‘ شخصیت کو بنیاد بنانے کی کوشش

   

حریمِ ناز کے پردے اٹھائیے پہلے
نگاہِ شوق کے منظر بدل تو سکتے ہیں
ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریتوں میں شمار ہوتا ہے ۔ ہندوستان کی جمہوریت کی ساری دنیا میں ستائش کی جاتی ہے اور اس کا احترام کیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہندوستان میںانتخابات جمہوری طرز پر مسائل اور پالیسیوں کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے پروگرامس اور منصوبوںکو پیش کرتے ہوئے عوام سے رجوع ہوتی ہیںا ور ان کی تائیدو حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جو جماعتیں برسر اقتدار ہوتی ہیں وہ اپنے دور حکومت میں کئے گئے کاموں کو پیش کرتے ہوئے ووٹ حاصل کرنے کیلئے عوام سے رجوع ہوتی ہیں۔ یہ جمہوری عمل کا حصہ ہے ۔ ایک دوسرے پر پالیسیوں اور پروگرامس کی بنیاد پر تنقیدیں کی جاتی ہیں۔ تاہم حالیہ عرصہ میں بلکہ گذشتہ ایک دہائی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مسائل کو انتخابی عمل سے بہت دور کردیا جارہا ہے ۔ صرف ایک شخصیت کی بنیاد پر انتخاب لڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ عوام کے ذہنوں میں ایک شخصیت کی مخصوص چھاپ کو بٹھاتے ہوئے مسائل کو ان کے ذہنوں سے محو کیا جانے لگا ہے ۔ اس معاملے میں جہاں سیاسی جماعت اور اس کے قائدین سرگرم ہیںتو وہیں ملک کا گودی میڈیا بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے ۔ گودی میڈیا اس معاملے میں سب سے آگے دکھائی دے رہا ہے اور بارہا عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس ملک پر حکمرانی کا حق صرف ایک شخصیت کو حاصل ہے اور اسی شخصیت کی وجہ سے ہندوستان ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان ایک ایسا عظیم ملک ہے جس نے کئی شخصیتوں کو بنایا ہے اور انہیں عروج بھی عطا کیا ہے ۔ لیکن جب یہی شخصیتیں ہندوستان کی روح کو سمجھنے سے قاصر رہیں اور عوام کو نظر انداز کردیا گیا تو ملک کے عوام نے ہی انہیں تخت و تاج سے محروم کردیا ۔ اس معاملے میں ملک کے میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا بہت اہم رول ہوا کرتا ہے ۔میڈیا نے کبھی جانبداری سے کام نہیں لیا تھا کیونکہ اس وقت تک میڈیا واقعی صحافیوں کے ہاتھ میں ہوا کرتا تھا آج میڈیا کو ایک صنعت بنادیا گیا ہے اور صنعتکاروں نے اس پر غلبہ حاصل کرلیا ہے ۔
جس وقت سے میڈیا پر صنعتکاروں کا تسلط ہوا ہے اور ٹی وی چینلس پر خبروں کی ترسیل کی جگہ ایجنڈہ کی تشہیر کو ترجیح دی جانے لگی ہے اس وقت سے جمہوری عمل پر بھی اس کے منفی اثرات ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں انتخابات کو ایک شخصیت کے گرد گھمایا جا رہا ہے ۔ ہر مسئلہ کو ایک شخصیت سے جوڑتے ہوئے تمام تر کامیابیاں اسی کے سر باندھی جا رہی ہیں اور ملک کو درپیش جتنے بھی مسائل ہیں ان سب کیلئے آزادی کے بعد ملک کے پہلے وزیر اعظم کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ جو شخصیت گذشتہ ایک دہے سے ملک پر حکومت کر رہی ہے اس سے سوال پوچھنے کی کسی بھی ہمت نہیں رہ گئی ہے ۔ جو صحافی واقعی سوال کرتے تھے انہیں بھی نشانہ بنایا گیا ہے اور انہیںحاشیہ پر کردیا گیا ہے ۔ جو صحافی یا جرنلسٹ کی بجائے اینکر کا رول ادا کرتے ہوئے تلوے چاٹنے والے ہیںانہیں مسلسل عروج حاصل ہو رہا ہے ۔ ان پر عنایتیں ہو رہی ہیں اور انعامات و اعزازات سے نوازا جا رہا ہے ۔ یہ بھی جمہوریت اور جمہوری عمل کیلئے ایک تکلیف دہ صورتحال ہے ۔ آج ملک کے عوام اور خاص طور پرنوجوانوںکو بے طرح مسائل کا سامنا ہے ۔ ان کو روزگار دستیاب نہیں ہے ۔ ایک ایک نوکری کیلئے سینکڑوں افراد امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ ملازمتوں کی فراہمی کا سلسلہ رک سا گیا ہے ۔ امتحانات کے پرچے افشاء ہو رہے ہیں اور مہنگائی سر چڑھ کر بولنے لگی ہے ۔ اس پر کوئی سوال ہو رہا ہے اور نہ کوئی جواب دیا جا رہا ہے ۔
ملک کے وزیر اعظم کی شبیہہ کو ایک طرح سے ایک مخصوص فرقہ کے رہنما کے طور پر پیش کردیا گیا ہے اور سارے مسائل اور ان پر اٹھنے والے سوالات کے جواب میں صرف ایک چہرے کو آگے کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس سے جمہوری عمل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ میڈیا ہو یا پھر سیاسی قائدین ہوں انہیں یہ اعتراف کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک سے بڑی کوئی شخصیت نہیں ہوسکتی اور عوام سے بڑا کوئی چہرہ نہیں ہوسکتا ۔ ملک و ملک کے عوام کو مسائل اگر درپیش ہیں ان کو حل کرنا اور ان کی یکسوئی میں ناکامی پر سبھی کو جواب دینا پڑتا ہے ۔ چہروں کی بجائے مسائل کی بنیاد پر عوام کا مقابلہ کیا جانا چاہئے ۔