انتخابات ‘ عوام اور سیاسی جماعتیں

   

پھر دل میں میرے شعلۂ اُلفت بھڑک اُٹھا
نغموں سے آگ مجھ پہ یہ برسا رہا ہے کون
ملک میں انتخابات کا بگل بج چکا ہے ۔ سات مراحل پر مشتمل انتخابی شیڈول کی الیکشن کمیشن کی جانب سے اجرائی عمل میںآچکی ہے اور لوک سبھا کے ساتھ چار ریاستوں ارونا چل پردیش ‘ سکم ‘ اوڈیشہ اور آندھرا پردیش میں اسمبلی کیلئے بھی ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ گذشتہ چند دن سے توقع کی جا رہی تھی کہ کسی بھی وقت انتخابی شیڈول کی اجرائی عمل میںلائی جاسکتی ہے تاہم ایک الیکشن کمشنر کے استعفی کی وجہ سے شیڈول کی اجرائی میں تاخیر ہوئی تھی ۔ اب جبکہ شیڈول کی اجرائی عمل میں لائی جاچکی ہے تو سارے ملک میں سرگرمیوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوجائیگا ۔ عوام کے سامنے سیاسی جماعتیں اور ان کے نمائندے اب پہونچنے لگیں گے اور بلند بانگ دعوے کرنے میںکوئی عار محسوس نہیں کرینگے ۔ برسر اقتدار بی جے پی کی جانب سے اب تک تقریبا نصف حلقوں کیلئے امیدواروں کا اعلان بھی کیا جاچکا ہے ۔ کانگریس نے بھی دو فہرستوں کی اجرائی کے ذریعہ کچھ امیدواروں کا اعلان کردیا ہے ۔ دوسری جماعتیں بھی انتخابی موڈ میں پہونچ رہی ہیں۔ اپنے اپنے امیدواروں کے انتخاب کے عمل کو تیز کردیا گیا ہے ۔ ساری سیاسی سرگرمیوں کے دوران ایک بات پر خاص طور پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی عوام کو گمراہ کرنے میںکامیاب نہ ہونے پائے ۔ جس طرح کی سیاسی شعبدہ بازیاں ہمارے ملک میں کی جاتی ہیں ان کی مثالیں کسی اور ملک میں شائد ہی مل پائیں۔ حیرت کی بات یہ ہوتی ہے کہ ہمارے ملک کے عوام سیاسی شعور اور بصیرت رکھنے کے باوجود اس طرح کی شعبدہ بازی اور جذباتیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ بی جے پی اور اس کے قائدین عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔ انہیںگمراہ کرتے ہیںاور ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی جاتی اس کے باوجود عوام رائے دہی کے وقت اس استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس بار جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے نتائج انتہائی دور رس اثرات کے حامل ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں ملک کے عوام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ محض جذباتیت کا شکار ہونے یا کسی کے استحصال کا شکار ہونے کی بجائے سمجھ بوجھ اور فہم و فراست سے کام لیں۔
آج ملک میں کئی طرح کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کہیں اپوزیشن کا صفایا کردینے کی بات ہو رہی ہے تو کہیں کانگریس مکت بھارت کی بات ہو رہی ہے ۔ کہیں عوامی حقوق چھین لئے جانے کی بات ہو رہی ہے تو کسی کو یہ اندیشے ہیں کہ ملک میں آئندہ انتخابات ہی نہیںکروائے جائیں گے ۔ کہیں سے اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں تو کہیں سے یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی دو تہائی اکثریت حاصل کرلیتی ہے تو پھر ملک میںدستور ہی تبدیل کردیا جائیگا ۔ یہ انتہائی خظرناک صورتحال کہی جاسکتی ہے ۔ حالانکہ بی جے پی نے دستور کی تبدیلی کے بیان سے خود کو لا تعلق کلیا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی کے کئی قائدین اس طرح کی بیان بازیاں کرتے ہوئے اپنے عزائم و منشا کا اظہا رکرتے ہیں۔ اکثر و بیشتر تو بی جے پی اور اس کے قائدین اس معاملے میں خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور بالواسطہ ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کبھی بحالت مجبوری اگر اس پر کوئی رد عمل ظاہر کرنا بھی پڑے تو محض لا تعلقی کا اظہار کرتے ہیں ایسے عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ انہیں جوابدہ نہیں بنایا جاتا ۔ ان کے خلاف نہ قانونی کارروائی ہوتی ہے نہ پارٹی میں کوئی تادیبی کارروائی کی جاتی ہے ۔ یہ جو رجحان ہے انتہائی تشویشناک کہا جاسکتا ہے ۔ ملک میں جمہوریت ہے اور جمہوری عمل کو مستحکم کرنے کیلئے عوام کو اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا ۔ کسی بھی جماعت یا کسی بھی لیڈر کو اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے کہ وہ ملک کے دستور کو تبدیل کرنے کی بات کرے یا دستور میں جو کچھ گنجائش رکھی گئی ہے اس کی خلاف ورزی کرسکے ۔
اب جبکہ انتخابی شیڈول جاری ہوچکا ہے تو اس بات کی بھی اندیشے ضرور ہیں کہ ملک میں کچھ قائدین اور کچھ گوشوں کی جانب سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کرنے کی کوششیں ہوسکتی ہیں۔ اشتعال انگیز یا نفرت انگیز بیانات جاری کئے جاسکتے ہیں۔ ملک کے عوام کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی اشتعال انگیزی کا شکار نہ ہوں۔ کسی کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بنیں۔ اپنے ہوش و حواس کو قابو میں رکھتے ہوئے ملک اور ملک کے عوام کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ ملک کو ترقی کی راہ پر لیجانے والوں کو اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھتے ہوئے سماج کے تمام طبقات کے ساتھ مساوی سلوک کرنے اور ملک کے قانون اور دستور کا صد احترام کرنے والوں کا انتخاب کیا جانا چاہئے کہ نہ قانون اور دستور کی خلاف ورزی کرنے والوں کا ۔
کویتا کی گرفتاری
انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے بالآخر بی آر ایس کی رکن قانون ساز کونسل کے کویتا کو گرفتار کرلیا ہے ۔ کویتا کے گھر لی تلاشی لینے کے بعد ان کی گرفتاری کا اعلان کیا گیا اور انہیں دہلی منتقل کردیا گیا ۔ دہلی میں عدالت نے انہیں ای ڈی کی تحویل میں بھی دیدیا گیا ہے ۔ یہ ایک قانونی عمل ہے اوراس کی تکمیل کی جانی چاہئے تاہم جس وقت پر یہ کارروائی کی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے تحقیقاتی ایجنسیوں کے استعمال کے جو الزامات عائد کئے جاتے ہیں وہ بے بنیاد نہیں ہیں۔ ہر بار یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی نہ کسی انتخاب کے موقع پر کسی نہ کسی لیڈر کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے ۔ ویسے تو کویتا کے خلاف الزامات بہت پہلے سے عائد کئے جا رہے تھے ۔ کہا جا رہا تھا کہ دہلی شراب اسکام میں کویتا نے سرگرم رول ادا کیا ہے ۔ اس کے باوجود ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی تھی ۔ ان کو پوچھ تاچھ کیلئے طلب ضرور کیا گیا تھا اور انہوںنے پوچھ تاچھ میں تعاون بھی کیا تھا لیکن حالیہ وقتوں میں جس طرح سے حالات نے رخ بدلا ہے اس سے سیاسی انتقام کے شبہات کو تقویت ملتی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ ایک طرح کی سیاسی حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے کیونکہ کویتا کی گرفتاری سے بی آر ایس کے تعلق سے عوام میں ہمدردی پیدا ہوسکتی ہے اور اس کے ووٹ فیصد میں کچھ معمولی سا بھی اضافہ ہوتا ہے تو بی جے پی اس سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے ۔ بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ قانونی عمل کی تکمیل کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں اب عام ہو گئی ہیں۔