انتخابات کیلئے مندروں کا استعمال

   

سیج کانٹوں کی ہٹانا ہے جو راہوں سے فضا
پھول کی شاخ سے خنجر کو بدلنا ہوگا
انتخابات کیلئے مندروں کا استعمال
انتخابات میں عوام کے درمیان پہونچتے ہوئے ان کی تائید اور ووٹ حاصل کرنے کا ایک طریقہ کار مقرر ہے ۔ اس کے مطابق ہی سیاسی جماعتیں اور امیدوار عوام سے رجوع ہوتے ہوئے انہیں اپنے پروگرامس اور منصوبوں سے واقف کرواتے ہیں اور پھر ان کی تائید و حمایت حاصل کی جاتی ہے ۔ ہر جماعت اور ہر امیدوار یہ کوشش کرتا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ عوام کی تائیدو حمایت حاصل ہو۔ اسے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل ہوں اور پھر وہ قانون ساز ایوان تک رسائی حاصل کرسکے ۔ بلاک سطح سے لے کر پارلیمنٹ تک رسائی کیلئے یہی طریقہ کار ہے تاہم سیاسی جماعتیں اورا میدوار وقفہ وقفہ سے یہ کوشش کرتے ہیں کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ہوتی رہے وہ اپنے سیاسی فائدہ کیلئے کچھ بھی کر گذرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ اب بی جے پی کی جانب سے یہی طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے ۔ انتخابی ضابطہ اخلاق میں واضح طور پر ہدایات موجود ہیں کہ انتخابات کیلئے مذہب کا سہارا نہیں لیا جاسکتا ۔ مذہبی تقاریر نہیں کی جاسکتیں۔ مذہب کی دہائی نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی مذہبی مقامات کا سہارا لیا جاسکتا ہے ۔ واضح ہدایات اور بی جے پی کے مرکز اور کئی ریاستوں میں برسر اقتدار ہونے کے باوجود پارٹی کی جانب سے خالصتا مذہب کا سہارا لیتے ہوئے انتخابات میں مقابلہ کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ مندروں میں تشہیر کی جا رہی ہے کہ جو جماعتیں بی جے پی مخالف ہیں ان کو ووٹ نہ دیا جائے ۔ جو امیدوار ہندو نہیں ہیں انہیں ووٹ نہ دیا جائے ۔ اگر کوئی امیدوار ہندو ہے بھی تو اس کی بی جے پی سے وابستگی کی بنیاد پر ہی ووٹ دیا جائے ۔ اس معاملے میں اترپردیش سب سے آگے ہے ۔ اترپردیش میں ہر کام کو مذہبی نطقہ نظر سے انجام دیتے ہوئے اور ہر انتخابی تشہیر کو مذہب کا رنگ دیتے ہوئے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اب اترپردیش کے وارانسی کی کاشی وشواناتھ مندر میں متعین پولیس اہلکاروں کو پجاریوں کا لباس پہنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ اس پر عمل آوری شروع کردی گئی ہے ۔ یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی انتخاب لڑتے ہیں۔
ہندوستان بھر میں پولیس فورس کیلئے ایک مروجہ ڈریس کوڈ ہے ۔ یہ ڈریس کوڈ پولیس عملہ اور اہلکاروں کو عام آدمی سے الگ بناتا ہے ۔ اس لباس کی اپنی ایک اہمیت ہے ۔ اس کے باوجود اب محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے بی جے پی نے پولیس اہلکاروں کو بھی سادھو اور پجاری کا لباس پہنانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔پولیس کمشنر وارانسی کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد ہجوم پر کنٹرول کرنا ہے ۔ یہ عذر ناقابل قبول ہے کیونکہ جہاں تک ہجوم پر قابو پانے کا مسئلہ ہے تو پولیس کا ڈریس ہی عوام پر اثر انداز ہوتا نظر آیا ہے ۔ جہاں کہیں کوئی ہجوم ہوتا ہے وہاں پولیس کی موجودگی ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ اسی سے عوام کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ درا صل یہ ایک ایسا عذر ہے جو ناقابل قبول اور مضحکہ خیز کہا جاسکتا ہے ۔ اس کے پس پردہ مقاصد بھی فرقہ وارانہ جذبات کا استحصال کرنا ہے ۔ اس کے ذریعہ بی جے پی ہندوتوا پالیسی کی عملا تشہیر کر رہی ہے تاکہ نہ صرف وارانسی میں بلکہ سارے اترپردیش میں اور سارے ہندوستان میں اس کی ہندوتوا پالیسی کی تشہیر ہوسکے اور اسے سیاسی فائدہ مل سکے ۔ انتخابات کے موقع پر اکثر و بیشتر بی جے پی کی جانب سے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں اور انہیں حربوں کے ذریعہ پارٹی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ حالانکہ ایسے طریقہ کار کی الیکشن کمیشن سے اجازت نہیں ہے لیکن اس معاملے میں الیکشن کمیشن بھی بے بس یا پھر خاموش ہی نظر آتا ہے ۔ وہ کچھ بھی کرتا دکھائی نہیں دیتا ۔
انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی بنیاد پر اگر کوئی امیدوار یا سیاسی جماعت اب اس اقدام کی مخالفت کرتے تو اس کو مذہب کا سہارا لیتے ہوئے عوام کو مشتعل کیا جاتا ہے اور پھر سیاست کی جاتی ہے ۔ بی جے پی اور خاص طور پر اترپردیش کی حکومت مذہب کے سہارے حکومت اور سیاست کرتی ہیں اور ملک کے عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے ۔ ملک میںہر کام کیلئے ایک طریقہ کار ہے اور قوانین ہیں اور ہر کسی پر ان قوانین کی پابندی ضروری ہوتی ہے ۔ حکومتیں بھی اس سے ماوراء نہیں ہیں۔ اترپردیش میں اس طرح کا اقدام مذہبی جذبات کا استحصال ہے اور اس طرح کی سیاست کو روکنے اور اس سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔