انتخابی ماحول میں نفرت کا عروج

   

ہر سمت مسلط اندھیارے ہر راہ میں حائل انگارے
اے دوست کسی سے ایسے میں تجدید محبت کیا ہوگی
انتخابات کے موسم میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ کم از کم اس وقت اپوزیشن سیاسی جماعتوںاور برسر اقتدار جماعت کی جانب سے عوام کے مسائل پر بات کی جائے گی ۔ عوام کو تیقنات دئے جائیں گے ۔ اب تک ان کیلئے کئے گئے کاموں کی تفصیل پیش کی جائے گی ۔ مستقبل کے منصوبوں کو پیش کرتے ہوئے ان کے ووٹ طلب کئے جائیں گے ۔ یہی انتخابی سیاست کی روایت بھی رہی ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کے سیاسی نظام کو روایت سے ہٹاکر فرقہ وارانہ کشیدگی اور نفرت کے ماحول کا شکار کیا جا رہا ہے ۔ حالانکہ سیاسی قائدین اور جماعتیں اپنے اپنے طور پر عوام کو رجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں وہ عوام تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ عوام کے سامنے نت نئے وعدے بھی کئے جا رہے ہیں۔ انہیںمختلف تیقنات بھی دئے جا رہے ہیں۔ اس سب کے درمیان سوشیل میڈیا پر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروںآئی ڈیز بناتے ہوئے نفرت کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ اس طرح کے پوسٹس کئے جا رہے ہیں جن سے سماج میںنفرت کو فروغ حاصل ہو رہا ہے ۔ عوام کے ذہنوںکو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیںر کھی جا رہی ہے ۔ عوام کے ذہنوں کو حقیقی مسائل سے بھٹکاتے ہوئے ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جا رہا ہے ۔ یہ خاموش مہم ہے جس کے ذریعہ نفرت کا زہر گھولا جا رہا ہے اور اس سے انتخابی عمل کے متاثر ہونے کے اندیشے بھی پیدا ہونے لگے ہیں۔ ایسے ایسے موضوعات کو پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیںہے اور نہ ہی تاریخ میںاس کے کوئی شواہد ملتے ہیں۔ صرف ایک مخصوص لفظ ’ ہندو‘ کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ان کے ذہنوںسے بیروزگاری ‘ مہنگائی ‘ خواتین کی فلاح و بہبود ‘ ان کے تحفظ اور سلامتی جیسے عوامل کو دور کرنے اور صرف مذہبی استحصال کرنے کے مقصد سے یہ سارا کچھ شروع کیا گیا ہے ۔ اس طرح کی کوششوں کے نتیجہ میںانتخابی عمل کی اہمیت متاثر ہونے لگی ہے ۔ اس ماحول میں جب عوام کو پرسکون انداز سے سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہوتا ہے اسی وقت میں ان کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی مہم پوری شدت کے ساتھ شروع کردی گئی ہے ۔
سوشیل میڈیا کے ذریعہ بالی ووڈ کی فلموںکے تعلق سے ہو یا پھر تاریخی واقعات کے تعلق سے ہو اس طرح کا پروپگنڈہ کیا جارہا ہے جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ الیکشن کمیشن کو اس تعلق سے حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ انتخابات لڑ۔ے کیلئے ملک میں قوانین موجود ہیں۔ ملک میںطریقہ کار موجود ہے ۔ دستوری گنجائش اور سہولیات موجود ہیں ان سے استفادہ کرتے ہوئے عوام سے رجوع ہونے کا موقع ہے اور ایسا ہی کیا جانا چاہئے ۔ محض مذہبی جذبات کے استحصال کے ذریعہ عوام کو حقیقی سوچ اور حقیقی مسائل سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ حکومت بھی اس معاملے میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔بلکہ یہ شبہات بھی ہیں کہ حکومت بالواسطہ طور پر ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ حکومت کی خاموشی ان عناصر کی حوصلہ افزائی ہی کہی جاسکتی ہے جس کی بناء پر یہ لوگ انتہائی دھڑلے سے ایسی مہم چلار ہے ہیں۔ سوشیل میڈیا کی اہمیت اور اس کے اثر سے آج ساری دنیا واقف ہے ۔ حقائق کو منظر عام پر لانے میں کئی مرتبہ سوشیل میڈیا نے انتہائی اہم رول ادا کیا ہے ۔ اس سہولت کا مثبت اور تعمیری انداز میں استعمال کیا جانا چاہئے لیکن اب اس کے الٹ کیا جا رہا ہے ۔ سوشیل میڈیا کا منفی سوچ کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے حالات کا استحصال کیا جا رہا ہے اور اس سلسلہ کو جتنا جلد ممکن ہوسکے روکا جانا چاہئے ۔ اس کا روکا جانا بہت ضروری ہے ۔
اکثر و بیشتر ملک میں دیکھا گیا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیاں یا حکومت کے ادارے ایسے معاملات میں خاموشی اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جب کبھی کسی گوشے سے حکومت کے خلاف سوشیل میڈیا پر تنقید کی جاتی ہے یا اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ان کے خلاف یہ ایجنسیاں اورادارے فوری حرکت میں آجاتے ہیں لیکن اب جبکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرتے ہوئے نفرت پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اس پر لگاتار خاموشی اختیار کی جا رہی ہے ۔ اس خاموشی کو ختم کرتے ہوئے نفرت اور اشتعال پھیلانے والوںکے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہئے ۔ ایسا کرنا ایجنسیوں کا فریضہ ہے ۔