انوکھی عیدی

   

رفیعہ نوشین
رانیہ نے محسوس کیا کہ پچھلے کچھ مہینوں سے ارتسام کچھ بجھا بجھا سا رہنے لگا ہے! اکثر آفس سے آنے میں بھی دیر ہوجاتی! اور کبھی کبھی مضطرب و مضمحل بھی دکھائی دیتا! رانیہ نے کئی بار وجہ جاننے کی کوشش کی مگر ہر بار وہ بات کو ٹال دیتا!
ماہ رمضان کا آغاز ہوچکا تھا!
ارتسام آفس جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ رانیہ گویا ہوئی ”ارتسام وہ کام والی خالہ بتا رہی تھیں کہ ان کے پڑوس میں ایک بیوہ اور یتیم بچے رہتے ہیں! میں انہیں زکواۃ ادا کر دوں؟
”ہاں کر دو’ وہ دور کہیں خلاؤں میں دیکھ رہا تھا –
”لگتا ہے تم اس بات سے خوش نہیں ہو” رانیہ نے اسے بھانپتے ہوئے کہا –
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں!”
رانیہ تمہیں پتہ ہے ہم جن بیواؤں اور یتیموں کی مالی امداد کرکے بہت خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنا فریضہ ادا کر دیا ان کے لئے پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا! پیسے سے ٰزیادہ ایک بیوہ کو ضرورت ہوتی ہے شوہر کی،یتیم کو باپ کی جو ان کا ولی ہوتا ہے اور انہیں اپنے تحفظ کے حصار میں رکھتا ہے! ان کی کفالت کرتا ہے – محبتیں لٹاتا ہے! اب تم بتاؤ کیا ہماری زکوۃ انہیں وہ سب فراہم کرے گی جس کی انہیں سخت ضرورت ہے؟ وہ جذباتی ہوگیا تھا! اسکی آواز لرز رہی تھی اور سانسیں تیز ہو گئی تھیں! رانیہ اسکی یہ حالت دیکھ کر حیران رہ گئی! ایسا محسوس ہورہا تھا گویا ارتسام نے خود بیوگی یا یتیمی کی زندگی جی ہو! کیونکہ جو کرب اس کے لہجے میں تھا – وہ ایک بیوہ اور یتیم کا کرب تھا جو ارتسام کی زبان سے ادا ہو رہا تھا!
ارتسام تم ٹھیک تو ہو؟ cool down! رانیہ اسے تسلی دے رہی تھی! تمہاری بات سچ ہے لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟؟؟ جو ہمارے بس میں ہے وہی نا…! رانیہ بے بسی کا اظہار کر رہی تھی ۔
ہر انسان کی سوچ صرف یہیں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے کہ وہ کر ہی کیا سکتا ہے! جبکہ ہم اگر چاہیں تو یقیناّ انہیں بھی وہ ساری خوشیاں دے سکتے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں! بشرطیکہ سماج اپنا نظریہ بدلے! خیر آفس جانے کا وقت ہو رہا ہے میں چلتا ہوں!
ارتسام کے جانے کے بعد وہ کافی دیر تک سوچتی رہی اور پھر فون اٹھا کر کسی سے طویل گفتگو کرتی رہی!
عید کے لئے صرف دو دن رہ گئے تھے! ساری تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں- اسکے باوجود نہ جانے کیوں ارتسام کے چہرے پر ادھورے پن کا احساس نمایاں تھا – آخر عید کا دن آہی گیا جس کاسب کو بے چینی سے انتظار تھا۔ رانیہ آج بہت چہک رہی تھی اور بہت خوش نظر آرہی تھی- اس نے گھر کوبھی بہت سلیقہ سے سجایا تھا اور خود کوبھی! ہمہ اقسام کے لذت دار پکوان بھی کئے تھے جس کی خوشبو سارے گھر میں مہک رہی تھی!
عید کی نماز کے لئے جانے سے پہلے ارتسام نے رانیہ کو عیدی کے لئے یاد دہانی کروائی –
اور عید گاہ کے لئے نکل پڑا! رانیہ کا یہ معمول تھا کہ وہ شوہرسے عیدی تو لیتی ہی تھی لیکن ہر سال شوہر کو بھی عیدی میں کچھ نہ کچھ تحفہ ضرور دیتی جسے ارتسام بڑے ناز سے سنبھال کر رکھتے اور کہتے کہ یہ میرے لئے متاع حیات ہے!
’’رانیہ کہاں ہو بھئی! لو ہم عید کی نماز سے بھی فارغ ہوگئے‘‘! ارتسام عیدگاہ سے لوٹ آئے تھے –
ابھی آئی کہہ کر رانیہ دوڑی دوڑی گئی اور اپنے شوہر سے بغلگیر ہو گئی! ارتسام نے مسکراتے ہوئے اس کا ماتھا چوما اور اپنا دایاں ہاتھ اسکے سامنے پھیلا کر بولا ‘لاؤ ہماری عیدی’۔
‘ائے آپ کی عیدی تیار ہے یہ کہہ کر رانیہ ارتسام کا ہاتھ تھامے اسے بیڈروم میں لے گئی جہاں غزالہ اور اس کی پیاری سی بیٹی سنبل دونوں موجود تھیں!! ارتسام ان دونوں کو اپنے گھر میں پاکر بھونچکا سا رہ گیا! اس کے ہوش اڑ گئے اس کی زبان گنگ ہو گئی تھی۔ اس کو تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ دونوں اچانک یہاں کیسے وارد ہو گئیں؟ رانیہ نے اس کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے کہا کچھ ہی دیر میں قاضی صاحب آئیں گے نکاح کے لئے تیار رہنا۔ اس بار عیدی میں آپ کو ایک بیوہ کی محبت اور بیٹی کا پیار دونوں ملے گا!
ارتسام ابھی اس بات کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ رانیہ نے ایک اور دھماکہ کر دیا تھا۔ ’’لیکن تمہیں اس بات کا علم کیسے ہوا کہ میں غزالہ کو پسند کرتا ہوں اور اسے اپنی زوجیت میں لینا چاہتا ہوں۔ ارتسام نے حیرت سے پوچھا‘‘؟
ایک دن جب آپ باتھ روم میں تھے۔ غزالہ کا فون آیا تھا تب میں نے اس کا نمبر نوٹ کر لیا تھا۔ اور اس سے ربط میں تھی تب مجھے ساری سچائی کاپتہ چلا کہ آپ غزالہ اور اسکی بیٹی کو اپنانا چاہتے ہیں تاکہ ایک بیوہ کو شوہرکا ساتھ، ایک یتیم کو باپ کی محبت ملے! اور ایک باپ کو بیٹی کی نعمت لیکن ڈر اس بات کا تھا کہ میں اس بات کوقبول کروں گی بھی یا نہیں؟ اس دن جب آپ نے نے بیوہ اور یتیموں کے حوالے سے اپنا جذباتی نظریہ پیش کیا تو مجھے لگا کہ آپ نے بالکل سچ کہا تھا! ہم صرف زکوۃ ادا کرکے ان سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ ان کی دائمی خوشیوں کا خیال کرنا بھی ہماری زمہ داری ہے۔ ایک عورت ہونے کے ناطے میں عورت کی نفسیات اس کے درد، اس کے تقاضوں کو بہتر طور پر سمجھ سکتی ہوں! ہمارا معاشرہ سمجھتا ہے کہ صرف مرد کو ہی جنسی تسکین کی ضرورت ہوتی ہے اور عورت اس تسکین کا سامان! آخر سماج کب یہ سمجھے گا کہ عورت کے بھی اپنے جذبات اور فطری تقاضے ہوتے ہیں! یتیم بچوں کو والد کی شفقت محبت اور زندگی کے ہر گام پر رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے جو صرف انہیں زکوۃ کی رقم دینے سے تکمیل نہیں پاتی! رانیہ کی انکھیں بھر آئیں تھیں۔ رانیہ میں نے ہمیشہ سنا تھا کہ عورت سب کچھ برداشت کر سکتی ہے لیکن سوتن نہیں، وہ شوہر کے پیار کی تقسیم کو سہہ نہیں سکتی۔ اور عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے! لیکن تم نے تو ان سب باتوں کو غلط ثابت کر دیا اور بتا دیا کہ عورت ہی عورت کی دوست اور ہمدرد ہوتی ہے مجھے تم پر فخر ہے! اس نے دوبارہ رانیہ کو اپنی بانہوں میں بھینچ لیا! دور کھڑے غزالہ اور سنبل کے لبوں پر مسکراہٹ تیر رہی تھی اور آنکھوں میں خوشی کے آنسو جھلملا رہے تھے! زندگی میں اتنی حسین عید کا یہ پہلا اتفاق تھا جہاں رانیہ کے ایک فیصلے نے دائمی خوشیوں سے سب کا دامن بھر دیا تھا! ارتسام کو توقع بھی نہیں تھی کہ اس عید پر رانیہ اسے جیتی جاگتی انوکھی عیدی سے نوازے گی!