’ انڈیا ‘ اتحاد اور بی جے پی کی الجھن

   

ہم ہیں وفا شعار وفاؤں کا ہیں نشاں
وہ بے وفا ہیں، ہم سے جو رہتے ہیں بدگماں
آئندہ پارلیمانی انتخابات سے قبل اپوزیشن جماعتوں نے جو اتحاد تشکیل دیا ہے اس سے بی جے پی کی الجھنوں اور مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ بی جے پی کو جہاں صرف اپوزیشن کے اتحاد سے مشکلات کا سامنا تھا وہیں اب اسے اس اتحاد کے نام ’ انڈیا ‘ سے بھی مشکلات درپیش ہونے لگی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے کافی غور و خوض کے بعد سیاسی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے اتحاد کا نام انڈیا رکھا ہے ۔ پہلے تو اس نام کو ہی نشانہ بنانے کی بی جے پی اور اس کی ٹرول آرمی اور سوشیل میڈیا کارکنوں کی جانب سے کوشش کی گئی تھی ۔ تاہم جب اسے اس پر خاطر خواہ رد عمل حاصل نہیں ہوا تو پھر اب اس کو نئے سرے سے غور و خوض کے بعد ’ انڈیا ‘ اتحاد کی بجائے یو پی اے اتحاد ہی سے تذکرہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ بی جے پی نے اپوزیشن اتحاد کو نشانہ بنانے سابقہ نام یو پی اے ہی سے تذکرہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور خاص طور پر کانگریس کو نشانہ بنانے کی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ یہ در اصل اپوزیشن اتحاد کے نام ’ انڈیا ‘ سے بی جے پی کی مشکلات اور پریشانیوں کا ثبوت ہے ۔ اپوزیشن اتحاد کو ہی نشانہ بنانے کیلئے بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے منصوبہ بندی کی گئی تھی ۔ تاہم اب صورتحال اور بھی بدل گئی ہے ۔ پہلے تو اپوزیشن اتحاد کو ’ بھانا متی کا کنبہ ‘ قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے جو بلند بانگ دعوے کرنے میںشہرت رکھتے ہیں یہ دعوی کیا تھا کہ اپوزیشن اتحاد کرتا رہے وہ اکیلے سب پر بھاری ہیں۔ تاہم جیسے ہی اپوزیشن کے اتحاد کو قطعیت دی گئی اور اس پر مزید کام کاج شروع ہوا تو شائد بی جے پی اور مودی دونوں ہی کو یہ احساس ہوا کہ وہ تنہا سب پر بھاری نہیں ہیں۔ اسی لئے بی جے پی نے این ڈی اے اتحاد کو بھی فعال اور سرگرم بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور جتنی جماعتیں انڈیا اتحاد میں شامل ہیں ان سے زیادہ جماعتوں کو این ڈی اے اتحاد میں شامل کرلیا گیا ہے ۔ اپوزیشن اتحاد میں جہاں 24 جماعتیں شامل ہوئی ہیں وہیں این ڈی اے میں سابقہ حلیفوں اور دوسروں کو زبردستی شامل کرتے ہوئے اتحادیوں کی تعداد 36 کرلی گئی ہے ۔
اس طرح بی جے پی اور این ڈی اے نے خود یہ ثبوت فراہم کردیا کہ وزیر اعظم کا دعوی ایک اکیلا سب پر بھاری کھوکھلا تھا اور دکھاوا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو این ڈی اے میں ایسی جماعتوں کو بھی شامل کرنے کی ضرورت پڑ گئی جو اسے چھوڑ گئی تھیں ۔ اس کے علاوہ کچھ دوسری جماعتوں کے مفاد پرست عناصر کو لالچ دے کر ان کی خدمات بھی حاصل کی گئیں اور ان کے منحرف گروپس کو بھی این ڈی اے میں شامل کرلیا گیا ۔ ایک طرف تو زیادہ سے زیادہ جماعتوں کو ’ انڈیا ‘ اتحاد میں شامل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو اب اس اتحاد کے نام سے بی جے پی کی الجھن بھی واضح ہونے لگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس اتحاد کو انڈیا اتحاد کا نام دینے کی بجائے اسے سابقہ یو پی اے اتحاد ہی کے نام سے پکارنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ یہ دلچسپ اور حیرت کی بات ہے کہ ایک اتحاد نے اپنا نام خود بدلا ہے اور ایک نیا نام رکھا ہے تاہم بی جے پی اس اتحاد کے نام کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ وہ جس طرح ملک کے عوام پر کھانے اور کپڑوں کی پابندیاں عائد کر رہی ہے اور ایک مخصوص سوچ کو غذا اور لباس میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی تھی اسی طرح اب ایک دو درجن جماعتوں پر مشتمل اتحاد کا نام بھی اپنے طور پر رکھنا چاہتی ہے ۔ اس سے بی جے پی کی ذہنی بوکھلاہٹ کا پتہ چلتا ہے ۔ اس کے ذریعہ سے جو پیام بی جے پی دینے کی کوشش کر رہی ہے اس سے اس کی بوکھلاہٹ اور الجھن دونوں ہی واضح طور پر ملک کے عوام پر واضح ہو رہے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کے دو اجلاس اپنے اتحاد کے سلسلہ میں ہوچکے ہیں اور ایک تیسرا اجلاس بھی ممبئی میں ہونے والا ہے ۔ این ڈی اے نے انڈیا اتحاد کے دوسرے اجلاس کے دن ہی اپنا اجلاس رکھتے ہوئے کئی جماعتوں کو شامل کیا تھا اور اپنی بوکھلاہٹ کا واضح ثبوت دیا تھا ۔ اب انڈیا اتحاد کو اس کے نام سے نشانہ بنانے میں جو پریشانی ہوسکتی تھی اس کا اندازہ کرتے ہوئے اس کو سابقہ نام سے ہی پکارنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ یہ سیاسی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے ۔ اس کو ذہنی بوکھلاہٹ اور الجھن ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ کسی اتحاد کا نام کوئی دوسرا اتحاد یا اس کا مخالف تبدیل نہیں کرسکتے اور اس کی کوئی گنجائش نہیںہوسکتی۔