انڈیا اتحاد اور گودی میڈیا

   

ٹھوکروں کی چیز تھی دنیا مگر ہے تاج سر
کس جگہ رکھنا تھا اس کواور کہاں رکھتا ہوں میں
جس وقت سے ملک میں اپوزیشن جماعتوں کا انڈیا اتحاد وجود میں آیا ہے اس وقت سے ہی بی جے پی اور اس کے ہمنوا اداروں اور تنظیموں میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہونے لگی تھی ۔ بی جے پی اور اس کے قائدین کو یہ امید بالکل نہیں تھی کہ انڈیا اتحاد اس طرح سے تشکیل پائے گا اور دو درجن سے زائد جماعتیں اس کا حصہ بننے کیلئے تیار ہوجائیں گی اور یہ سب جماعتیں اپنے مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو شکست سے دوچار کرنے کے ایجنڈہ پر کام کرنے کو اولین ترجیح دیں گی ۔ جس وقت پٹنہ میں پہلا اجلاس منعقد ہوا تھا اس وقت سے ہی بی جے پی کی صفوں میں بے چینی پیدا ہونے لگی تھی اور جب دوسرا اجلاس بنگلورو میں منعقد ہوا اور اس اتحاد کو انڈیا اتحاد کا نام دیا گیا اس کے بعد سے تو بی جے پی کی بے چینی میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ سب سے زیادہ توا س اتحاد کے نام سے بی جے پی الجھن کا شکار ہوگئی ہے ۔ وہ جس طرح قوم پرستی کا دم بھرنے کا مظاہرہ کرتی ہے وہ کہیں پس منظر میں چلا گیا تھا اور اپوزیشن نے انڈیا کا نام اختیار کرتے ہوئے اس معاملے میں بی جے پی کو پہلی بار مدافعتی موقف اختیار کرنے پر مجبور کیا تھا ۔ بنگلورو اجلاس تک این ڈی اے اور بی جے پی کی الجھن اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ دوسرے اجلاس کے دن ہی این ڈی اے جماعتوں کا اجلاس بھی منعقد کیا گیا تھا ۔ اسی طرح جتنی جماعتیں انڈیا اتحاد میں شامل ہیں اس سے زیادہ جماعتوں کو این ڈی اے اتحاد کا حصہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ بی جے پی اور این ڈی اے کی بے چینی اور مخالفت تو قابل فہم ہے ۔ یہ سیاسی اختلافات کی وجہ سے ہے ۔ اقتدار کی خاطر ہے اور ہر کوئی اپنی اپنی کامیابی چاہتا ہے اس لئے دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے ۔ تاہم جہاں تک ہمارے میڈیا بلکہ گودی میڈیا کا سوال ہے تو اس کی بے چینی بھی بہت زیادہ ہے اور یہ ناقابل فہم ہے ۔ زر خرید میڈیا کے تلوے چاٹنے والے اینکرس کو سب سے زیادہ تکلیف نظر آتی ہے ۔ وہ در اصل بی جے پی کے ترجمان کی طرح کام کرتے ہوئے انڈیا اتحاد کو نشانہ بنانے بلکہ اسے توڑنے کی کوششوں میں زیادہ مصروف نظر آنے لگے ہیں۔
اپنے آپ کو صحافی یا جرنلسٹ یا اور کچھ بھی کہنے والے یہ لوگ در اصل محض ٹی وی اینکرس ہیں جو کسی بھی چیز کو ایک ہی رنگ میں اور ایک مخصوص انداز میں پیش کرنے میں ہی مہارت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ درا صل اپنی غلامانہ چاپلوسی میں دوسروں سے سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔ اسی لئے یہ اینکرس اپنی پیشہ ورانہ دیانت اور مہارت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بی جے پی ترجمان بلکہ انڈیا اتحاد کے حریف کی طرح کام کرنے لگے ہیں۔ انڈیا اتحاد میں نام نہاد اختلافات یا تضادات کی جو خبریں چلائی جا رہی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ خود انڈیا اتحاد کے اجلاس میں بھی اس کو واضح کردیا گیا ہے کہ ہر جماعت اپنے مقصد کی خاطر کچھ قربانی دینے کیلئے بھی تیار ہے ۔ وہ اپنے ایجنڈہ اور مقصد پر توجہ کئے ہوئے ہیں۔ انہیں ذاتی مفاد یا سیاسی عہدوں کی کوئی لالچ نہیں ہے ۔ اس کے باوجود زر خرید میڈیا کے تلوے چاٹنے والے اینکرس اپنی حدوں کو پار کرتے ہوئے غلامی کا طوق اپنے گلے میں باندھے ہوئے جھوٹا پروپگنڈہ اور تشہیر کرنے میں مصروف ہیں۔ حقیقی صحافی جو ہوتا ہے وہ غیر جانبدار ہوتا ہے ۔ نہ حکومت کا طرفدار ہوتا ہے اور نہ اپوزیشن کی حمایت کرتا ہے ۔ ہر ایک کے ساتھ انصاف کرتا ہے ۔ ہر اچھی بات کی تشہیر کی جاتی ہے ۔ ہر غلط پالیسی یا فیصلے یا کارروائی کو اجاگر کرتے ہوئے عوام میں پیش کردینا اس کا فریضہ ہوتا ہے ۔ کسی بھی کام میں میڈیا کو فریق نہیں بننا چاہئے لیکن ہندوستان میں یہ روایت کہیں پس منظر میں چلی گئی ہے بلکہ ختم ہوگئی ہے ۔
سیاسی یا نظریاتی اختلاف کسی کو بھی ہوسکتا ہے اور کسی سے بھی ہوسکتا ہے ۔ تاہم صحافی یا میڈیا کو اس میں فریق ہرگز نہیں بننا چاہئے ۔ کسی ایک نظریہ سے اتفاق کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ دوسرے نظریہ کو پوری طرح باطل قرار دے یا اس اس کا خاتمہ ہی کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ ہندوستان مختلف نظریات کو اختیار کرنے والے لوگوں کا ملک ہے ۔ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں اسی طرح سیاسی نظریات بھی ہر ایک کے مختلف ہوسکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں۔ ان سب کا احترام کیا جانا چاہئے اور میڈیا کو فریق بننے اور جھوٹ پھیلانے کی بجائے غیرجانبدار رہنے اور سچ کو سامنے لانے کی ضرورتہ ے ۔