’انڈیا اتحاد ‘ کہاں جا رہا ہے ؟

   

چل ائے دل اس جہانِ رنگ و بو سے دور چل نکلیں
میرا ہونا زمانے کیلئے بار گراں کیوں ہو
بی جے پی کو شکست دینے کے مقصد سے قائم کیا گیا انڈیا اتحاد ابھی تک کوئی مستحکم اور قطعی شکل اختیار کرنے میں کامیاب نہیںہوسکا ہے ۔ انڈیا اتحاد کا نعرہ دینے والے چیف منسٹر بہار و جنتادل یونائیٹیڈ کے سربراہ نتیش کمار نے خود حسب روایت پلٹی مار لی ہے ۔ انہوںنے راشٹریہ جنتادل اور کانگریس سے اپنے اتحاد کو ختم کرتے ہوئے بی جے پی و نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد میںشمولیت اختیار کرلی ہے ۔ انڈیا اتحاد میں ذمہ دار اور اہم موقف رکھنے والے قائدین ابھی تک کسی ایک قطعی فارمولے کو تیار کرنے میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ جہاں کانگریس انڈیا اتحاد کی سب سے بڑی جماعت ہے وہیں اترپردیش کے سابق چیف منسٹر اکھیلیش یادو ‘ مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتابنرجی ‘ عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کجریوال وغیرہ بھی ایسا لگتا ہے کہ انڈیا اتحاد کی موجودہ صورتحال سے مطمئن نہیںہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتحاد کے قائدین کے مابین ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ۔ نتیش کمار کے پلٹی مارنے کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ دوسرے قائدین اس نقصان کو پورا کرنے کیلئے اپنی سیاسی انا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد کو مستحکم اور مضبوط کرنے کیلئے زیادہ شدت سے کام کریں گے تاہم ایسا لگتا ہے کہ کچھ قائدین اب بھی ایسے ہیںجنہیں اپنی سیاسی انا زیادہ عزیز ہے اور بی جے پی کو شکست دینے کے اصل ایجنڈہ اور مقصد کو انہوںنے ثانوی حیثیت دے رکھی ہے ۔ ان قائدین کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ بی جے پی خود چاہتی ہے کہ اپوزیشن کی صفوںمیں اتحاد نہ ہونے پائے اور وہ انتشار کا شکار ہوکر انتخابات میں مقابلہ کریں تاکہ بی جے پی کو کامیابی سے کوئی روکنے کے اہل نہ رہ جائے ۔ بی جے پی اب کی بار 400 پار کے نعرہ پر مقابلہ کر رہی ہے ۔ وہ اپنے طور پر اس کی تیاری بھی کر رہی ہے اور اس کیلئے اس نے کئی طرح کے منصوبے بھی تیار کر رکھے ہیں۔ ان میں ایک اور سب سے اہم منصوبہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کو کسی بھی قیمت پر روکا جائے اور اسے ممکنہ حد تک انتشار کا شکار کرکے فائدہ اٹھایا جائے ۔
جس طرح سے ممتابنرجی ‘ اکھیلیش یادو اور اروند کجریوال کے تیور دکھائی دے رہے ہیں وہ اتحاد کے حق میںمفید نہیں کہے جاسکتے ۔ یہ درست ہے کہ ان کے اپنے سیاسی مسائل اور مصلحتیں ہوسکتی ہیں لیکن کوئی بھی مسئلہ یا مصلحت بی جے پی کو شکست دینے کے اصل مقصد و منشا پر ترجیح نہیں پانی چاہئے ۔ بی جے پی کو شکست دینے کیلئے جہاں علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو اپنا اپنا رول اپنی ریاستوں میں ادا کرنا چاہئے وہیں کانگریس کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اتحاد میں بڑے بھائی والا کردار ادا کرے ۔ ایثار و قربانی کے جذبہ کو آگے رکھتے ہوئے بنیادی مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔ تمام جماعتوں کی مرکزی قیادت ابھی تک اس مسئلہ پر نامناسب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ دوسرے درجہ کے قائدین اور ذمہ داران اس پر بات چیت کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیوں سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ یہ بیان بازیاں اتحاد کیلئے سب سے زیادہ مضر کہی جاسکتی ہیں۔ یقینی طور پر ایک سے زائد جماعتیں اور قائدین ایک جگہ ہونے کی کوشش کریں تو ان میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے ۔ یہ فطری بات ہے ۔ اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے لیکن سبھی کو اپنے اصل مقصد و منشا کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ کہیں کسی پارٹی کو تو کہیں کسی لیڈر کو اس معاملے میں تحمل اور ایثار کے جذبہ سے کام کرتے ہوئے آگے بڑھنے اور اتحاد کو یقینی بنانے اور اسے مستحکم کرنے کی کوششوں میں جٹ جانا چاہئے ۔ یہ تمام جماعتوں کیلئے بہت ضروری عمل ہے ۔
کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کو اس معاملے میں زیادہ سرگرمی دکھانی چاہئے ۔ راہول گاندھی بھارت جوڑو نیائے یاترا نکال رہے ہیں۔ پرینکا گاندھی تنظیمی امور وغیرہ پر توجہ دے سکتی ہیں جبکہ ملکارجن کھرگے کو سیاسی جماعتوں میں جو عزت و احترام حاصل ہے اس کو بروئے کار لاتے ہوئے سبھی جماعتوں کو ایک رائے بنانے کیلئے کوشش کرنی چاہئے ۔ بی جے پی کے سیاسی ہتھکنڈوں سے نمٹنا کسی بھی جماعت کیلئے تنہا آسان نہیںہے ۔ اگر اپوزیشن میںوسیع تر اتحاد ہوجاتا ہے تو پھر بی جے پی کو انتخابات میں شکست دینے کے امکانات کو تقویت حاصل ہوسکتی ہے اور ایسا کرنا سبھی جماعتوں کی سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے ۔