’ انڈیا ‘ اور اینکرس کا بائیکاٹ

   

اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل انڈیا اتحاد نے کچھ ٹی وی اینکرس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے ۔ یہ فہرست بھی جاری کردی گئی ہے کہ کن اینکرس کا بائیکاٹ کیا جائیگا ۔ ان کے شو میں انڈیا اتحاد میں شامل جماعتوں کے قائدین حصہ نہیں لیں گے ۔ ملک کی اپوزیشن جماعتوں کو گذشتہ کچھ برسوں سے یہ شکایر رہی تھی کہ کچھ ٹی وی چینلس اور اینکرس کی جانب سے یکطرفہ کام کرتے ہوئے حکومت کی چاپلوسی کی جا رہی ہے ۔ حکومت سے سوال پوچھنے کی بجائے حکومت اور برسر اقتدار جماعت کی ترجمانی کا کام کیا جا رہا ہے ۔ کچھ ٹی وی چینلس کے علاوہ کچھ اینکرس کے تعلق سے بھی سارے ملک میں یہ رائے عام ہے کہ یہ لوگ صحافی یا رپورٹرس کی طرح کم بلکہ حکومت اور بی جے پی کے ترجمان کا رول زیادہ شدت سے نبھاتے ہیں۔ حکومت سے سوال کرنے کی بجائے اپوزیشن کو نیچا دکھانے اور اپوزیشن قائدین کی امیج کو متاثر کرنے اور ان کی شبیہہ کو بگاڑنے کیلئے ایک مخصوص سوچ اور ایک مخصوص ایجنڈہ کو مسلط کرنے کیلئے کام کرتے ہیں۔ عوام کے کئی گوشوں کا یہ تاثر ہے کہ یہ اینکرس ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بھی متاثر کرنے کی وجہ بن رہے ہیں۔ یہ لوگ ہر مسئلہ کو ایک مخصوص ڈھنگ سے پیش کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر گھول رہے ہیں اور ان کی سوچ کو فرقہ وارانہ منافرت کی راہ دکھا رہے ہیں۔ یہ تو ہر مسئلہ کو اس کی بنیادی نوعیت کے مطابق دیکھنے کی بجائے ایک الگ رنگ سے دیکھنے کی کوشش تھی ۔ دوسرے کچھ اینکرس ایسے بھی ہیں جن کا شائد یہ ذمہ بنادیا گیا ہے کہ وہ حکومت سے سوال کرنے کی بجائے حکومت کی ترجمانی اور اس کی مدافعت کریں۔ حکومت پر جہاں بھی سوال پیدا ہونے لگیں حالات کا رخ بدل دیا جائے اور عوام کے ذہنوں میں الگ ‘ نزاعی اور غیر اہم مسائل کو انڈیل دیا جائے تاکہ کوئی بھی حکومت کو اس کی ذمہ داری یاد نہ دلا سکے ۔ اس سے سوال نہ پوچھا جاسکے ۔ اس کے وعدوں کے تعلق سے باز پرس کرنا ممکن نہ رہ جائے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں میڈیا اور صحافت کا وقار مجروح ہو کر رہ گیا ہے ۔ لوگ اس پر بھروسہ نہیں کر پا رہے ہیں۔
جمہوریت میں صحافت کا ایک اہم رول ہوتا ہے ۔ ایک بڑا مقام ہوتا ہے ۔ یہ جمہوریت کا ایک اہم ستون ہوتا ہے ۔ صحافت کو ہر معاملے میں انتہائی غیرجانبداری سے کام کرنا ہوتا ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ صحافی کی زبان نہیں ہوتی ۔ وہ اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتا ۔ صحافی کے صرف کان اور آنکھ ہوتے ہیں۔ ان سے وہ دیکھتا اور سنتا ہے اور پھر من و عن تمام صورتحال کو عوام تک پہونچا دیتا ہے ۔ تاہم ایسا تاثر عام ہونے لگا ہے کہ ہندوستان میں میڈیا کی آنکھ اور کان خراب ہوچکے ہیں۔ صرف اس کے منہ میں زبان آگئی ہے ۔ سوال پوچھنے کے نام پر کسی کو نیچا دکھانا اور اسے رسواء کرنا معمول بن گیا ہے ۔ کسی اپوزیشن جماعت یا لیڈر کا امیج متاثر کرنا ‘ اس کی شبیہہ بگاڑ کر پیش کرنا میڈیا کا ایجنڈہ بن گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جہاں پیشہ صحافت اور اس سے وابستہ صحافیوں کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ ان کا احترام کیا جاتا تھا اب وہاں ان کی شبیہہ بدل کر رہ گئی ہے ۔ لوگ کھلے عام ان کو کئی ناموں سے پکارنے لگے ہیں۔ صحافت اور میڈیا کا وقار خود میڈیا اور میڈیا کے نمائندوں نے بگاڑ لیا ہے ۔جو صحافت کبھی غیر جانبدار ہوا کرتی تھی ۔ کسی کی غلط کاریوں اور حکومت کے غلط فیصلوں سے عوام کو آگاہ کیا کرتی تھی ۔ ان میں شعور بیدار کیا کرتی تھی اب وہ سیاسی ہاتھوں کا کھلونا بن چکی ہے ۔ اقتدار کے گلیاروں میں رقص کرنے لگی ہے ۔ عوام میں شعور بیدار کرنے کی بجائے ان کی توجہ ہٹانے کا کام کر رہی ہے اور عوام میں نفرت گھولنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔
انڈیا اتحاد نے جو فیصلہ کیا ہے اس نے یہ واضح کردیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو اب کچھ اینکرس اور میڈیا چینلس پر بھروسہ نہیں رہ گیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے خیال میں انہیں ان چینلس پر اتنی نمائندگی نہیں ملتی جتنی کہ وہ حقدار ہیں۔ اس اتحاد میں جملہ 28 جماعتیں شامل ہیں۔ یہ جماعتیں عوام کے ایک بڑے طبقہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ بھی ملک میں جمہوریت کی حصہ دار ہیں۔ وہ بھی ملک کی ترقی اور ملک کے استحکام میں اپنا رول ادا کر رہی ہیں۔ میڈیا کو یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ وہ وجوہات کیا ہیں جن کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔ جائز اور واجبی شکایات کو دور کرنا خود میڈیا چینلس اور اینکرس کی بھی ذمہ داری ہے ۔