اُردو ذریعہ تعلیم اور ہماری معاشرتی ضروریات حالات وحقائق کے آئینہ میں

   

فیروزبخت احمد
جدیدمعاصرمعاشرہ اپنے تنوع کے اِعتبار سے زندگی کے تمام ادوار میں ممتاز تصور کیاجاتا ہے۔ زندگی کے تمام شعبہ ہائے زندگی کو نہ صرف ایک نئی رمق ملی ہے بلکہ اُسے ترقی کی ممتاز ترین مدارج پر فائز کرنے کی بہر کوششیں کی جارہی ہیں۔آج کے دور میں تعلیم گاہوں کا معیار نہ صرف بلند ہواہے بلکہ اُن کے کردارمیں بھی کافی وسعت آئی ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ اُس وسعت کے زیراثر ایسے عناصر کی بھی پذیرائی ہوئی ہے جنھوںنے نہ صرف معاشرہ کی دُکھتی رگوں پر ہاتھ رکھاہے بلکہ اُنھوںنے تعلیم کو ایک نئے زاویہ اورتصورات کے ساتھ پیش کیاہے۔وہ زاویہ کچھ اورنہیںسوائے مادّی بنیادوں کے۔آج کے سماج میںہزارہاایسے اِدارے اور تعلیم گاہیں نموپذیرہیں جنھوںنے تعلیم کے مقاصد کو یکسربدل کررکھ دیاہے۔بلاشبہ عوامی اِشتراکیت کے نظریہ کو فروغ ملناچاہیے لیکن اِس کا مطلب بالکل یہ نہیںہوناچاہیے کہ تعلیم کی اصل روح کی ہی گردن زدنی کردی جائے۔
معاصردانشوران کے مابین اکثر ایسے عناصر موضوعِ بحث لائے جاتے ہیں کہ جدیدسائنسی دورمیں تعلیم کے لیے کس زبان کاوسیلہ اختیارکیاجائے۔اِس عنصرپر غورکرنے کے بعداندازہ ہوتاہے کہ جتنے منہ اُتنی ہی باتوں کیمصداق بنے مباحث بلاکسی نتیجہ کے انجام پذیرہوجاتے ہیں۔مذکورہ بحث کوئی نئی بحث نہیںبلکہ انگریزی دورسے ہی ہندوستان میں اِس موضوع پرنہ صرف پرجوش بحثیں ہوئیں بلکہ حامیان نے برملااپنے نظریات کی تائیدمیں تشہیری عناصرسے اِستفادہ کو بھی حتمی شکل دیا۔
تعلیم کا اصل مقاصد تو فرد کثیرسمتی فروغ کے عناصرمیں مضمرہیں لہٰذا، زبان کا تعلق محض اِسی حد تک کہ اصل مواد تک رسائی کو یقینی بنایاجاسکے۔ اب یہاں سوال بالکل بجاطورپر ہوسکتا ہے کہ جس زبان میں زیادہ مواددستیاب ہوں۔اگراُسی کو ذریعہ تعلیم کے طورپراختیار کرلیاجائے تواُس سے ایک ذخیرۂ علم تک رسائی کو یقینی بنایاجاسکتاہے۔ لہٰذا، دورِجدیدکے متنوع سماج میں اُسی زبان کی مرکزیت منطقی ہے۔
مذکورحقائق ہوسکتا ہے کہ اپنے کسی نہ کسی عنصرکی بناپر سود مندہوں لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ زبانوں کا تعلق براہِ راست اِنسانی زندگی سے ہوتا ہے اور زبان میںجومواد ہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی سماج کی مکمل آئینہ داری کرتے ہیں۔اب اِس عنصرپر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سماج کی بنیادیں اوّلامذہبی عناصرکی غمازی کرتی تھیںلیکن آج کے سماج میں ایسے عناصرکارفرماہوئے اور ایسے عناصرکی پذیرائی ہوئی جنھوںنے مذہب کو بالائے طاق رکھ کر اپنے نفس کو مشعل راہ قرار دیا۔نتیجے کے طورپر اِنسان اپنی بساط بھر نتائج کی بنیاد پر ایسے دلدل میںپھنستا چلاگیا۔جہاں سے واپسی قدرے مشکل ہی نظرآرہی ہے۔
بہرحال،مذکورہ حقائق کی روشنی میں ہمیں ایسے عنصرپر بھی غورکرنے کی ضرورت ہے کہ زبان کو ہم کس پس منظر میںدیکھتے ہیں۔جب یہ حقیقت ثابت ہوچکی کہ کوئی بھی زبان ہو وہ اپنے مخصوص تہذیب کی آئینہ داری کرتی ہے۔تو کیا اِن حالات میں ہمیں اِس بات کی تمیز کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم اپنے مخصوص تہذیبی عناصرپرمبنی زبان کی پذیرائی کویقینی بنائیں۔اگر ایسا نہیں ہے توپھریادرکھیں کہ ہمارا سماج ایک ایسا سماج بن جائے گاجہاںاِنسانی روابط بالکل میکانکی ردّعمل کی صورت میں ظہورپذیرہوںگے۔اِن حالات میںیاد رکھیں کہ واپسی کی تمام شکلیں محدود ہوکر رہ جائیں گی تب کف افسوس ملنے سے کچھ نہ ہوگا۔لہٰذا، اہل خرد کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور ایسے عناصرکے فروغ کو یقینی بنائیں جو ہمارے معاشرتی تشخص کویقینی بنائیں۔
زبانوں کی اپنے آپ میںکوئی حقیقت نہیںہوتی ہے لیکن جب وہ پروان چڑھتی ہیں تواپنے الفاظ کے ذخائراپنے مخصوص تہذیبی پس منظرسے ہی لیتی ہیں لہذا، کوئی بھی زبان ہو اُس کی اپنی ایک پہچان ہوتی ہے اور اُس کااپناایک طریقۂ کار ہوتا ہے اگر ہم اُس زبان کو اختیار کرتے ہیں تو اُس طریقۂ کار سے اِتفاق کرناناگزیرہے ۔اگرہم اِتفاق نہیںکرتے ہیں تو ہماری زبان معیاری تصورنہیںکی جاسکتی اور نہ ہماری زبان کسی بھی رتبہ میںنہیں آسکتی ۔
دُنیامیںکوئی بھی زبان ہوسیکھنے میںکوئی قباحت نہیںہے بلکہ فرد کو اپنے تجسس کی تسکین کے لیے نئی نئی زبانیں سیکھنی چاہیے لیکن ایسے حالات میںسیکھناچاہیے جب اُسے اپنے تہذیبی عناصر پرمکمل دستر س ہواور وہ اِمتیاز کرسکتا ہو کہ کون سی چیز صحیح اور کون سی چیز غلط ہے۔اگر اُس کے اندر یہ شعور نہیںہے تو یقینا اُس کی زندگی میں ایسے عناصر شامل ہوجائیںگے جو عین اُس کی اپنی ذاتی تہذیب ورہن سہن سے بالکل متفرق ہوںگے۔لہٰذا، فرد کو چاہیے کہ وہ زبان کو کسی مقصد کے تحت سیکھے اور اِس بات کاپوراپورا خیال رکھے کہ اُس کا اپنا ضمیر اور اُس کی اپنی تہذیب مجروح نہ ہونے پائے۔
اگر ہم دورِجدید کے اُبھرتے معاشرہ پر ایک طائرانہ نظرڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا سماج بہت تیزی کے ساتھ تبدیلی کے حقائق سے دوچارہے۔کیاکبھی ہم نے غور کیا کہ ایسا کیوں ہے اور ہمارے سماج میںتبدیلیاں کیوں رونما ہورہی ہیں۔ ہمارے رہن سہن میںکیوں بدلائو آرہا ہے۔اگر ہم اِس عنصر پر غور کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُس کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں۔ اوّلین تو یہ ہے کہ ذرائع آمدنی کے تبدیل ہونے سے معاشرتی تبدیلیاں رونماہوتی ہیں۔چوں کہ آج کے سماج میں ذرائع آمدنی میںکافی تنوع پیداہوگیا ہے لہٰذا، سماجی تبدیلیاں ایک منطقی ردّعمل کا نتیجہ ہیں۔دوسرے یہ کہ ہمارے روابط ایسی تہذیبوں سے ہورہے ہیں جو دُنیا کے کسی اور کونے میں پھلی پھولی ہیں لہٰذا، اُن روابط کے طفیل ہمارے اندر اپنے آپ بدلائو آرہا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارا ضمیرخودکارطورپر ایسے عناصرکو اپنے اندرجذب کرلیتا ہے جسے ہمارا دماغ اُس سے بہتر تصورکرتاہے جو اُس میں موجودہے۔جب ہمارا دماغ اُسے بہترتصورکرلیتا ہے تو اپنے آپ ہی وہ اُس سے تبدیل کردیتا ہے نتیجے کے طورپر اپنے آپ ہی ہمارے رہن سہن میںتبدیلیاں رونماہوجاتی ہیں۔ہماری بات چیت اورلین دین کا طریقہ بدل جاتا ہے۔
اِس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ساری تہذیبیں اچھی ہوتی ہیں اوراُن میںبہت سی عادتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ہرکس وناکس کو تسلیم کرلیناہی چاہیے۔لیکن اگر ہم اپنے تمام روابط کو مادّیت کی کسوٹی پر رکھ کرتولنے لگ جائیں تو پھر کیاہوگایا اِسی طرح سے دوسروں کی زندگی میں مداخلت اندازی نہ کرنے کا مطلب یہ ہے ہم کسی سے بات چیت کرناہی چھوڑدیں تو پھر کیاہوگایا اِسی طرح سے ذاتی آزادی کے نام پر اجنبیت کافائدہ اُٹھاتے ہوئے ایسی حرکتیں کی جائیں جو ایک مہذب سماج کے منافی ہوتو پھر کیاہوگا۔
بہرحال، مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں اگر ہم دورِحاضر میں انگریزی زبان کو جومرکزیت حاصل ہوئی ہے وہ دُنیا کی دیگر کسی زبان کو میسرنہیں ہے۔ اِس کے پس پردہ کئی وجوہات ہوسکتے ہیں۔اوّلین تویہی ہے کہ یہ زبان بین الاقوامی رابطہ کی زبان تصور کی جاتی ہے اورتمام بین الاقوامی تجارتی اُمورمذکورہ زبان میں ہی انجام پاتے ہیں۔لہٰذا، اُس کی مقبولیت عین منطقی ہے۔
اب اگر ہم ہندوستان کے لسانی پس منظر کی بات کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہمارے ملک میں بہت سی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں لیکن اُس میں آج کے دورمیں جو مرکزیت انگریزی زبان کو حاصل ہوئی ہے وہ ہندوستان کے کسی اور زبان کے حصہ میں نہ آسکیں۔لیکن اِس سے یہ نتیجہ بالکل نہیں نکالاجاناچاہیے کہ ہمارے ہندوستان کی زبانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ اُن کی بھی ایک اہمیت ہے اور ہم اُس اہمیت کو نظرانداز نہیںکرسکتے۔ اگر ہم نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو یہ نہ صرف ہمارے ملکی مفادات کے برعکس ہوگا بلکہ ہماری آنے والی نسلیں اغیار پرستی کا شکار ہوجائیں گی جس کے تازہ ترین شواہد ہم دیکھ سکتے ہیں۔ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ کس طرح سے ہمارا سماج بدل رہا ہے اور کس طرح سے حالات پیدا ہورہے ہیں۔
اِس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ بغیرانگریزی زبان کے آج کے زمانہ میںکوئی کام چلنے والا نہیں ہے ۔آپ کو اگر چھوٹی سے چھوٹی نوکری اور بڑا سے بڑا کام کرنا ہے تو انگریزی جاننا ضروری ہے۔آج انگریزی نہ صرف ایک تکنیکی زبان ہے بلکہ ایک بین الاقوامی رابطہ کی بازاری زبان بھی ہے لہٰذا، ہر کس وناکس کو اُسے سیکھناضروری ہے۔ہمارے مذکورہ نظریہ سے یہ نتیجہ بالکل بھی نہیں نکالاجاسکتا کہ انگریزی کی مرکزیت کو ختم کردیاجائے اور محض کسی علاقائی زبان پر ہی اِکتفا کرلیاجائے بلکہ اُس سے یہ مطلب نکالناچاہیے کہ ہمیں انگریزی زبان کسی مقصد کے تحت سیکھنا چاہیے۔
اگر ہمیں انگریزی زبان کو بطورمیڈیم کے اختیار کرنا ہے تو کم سے کم تین زبانوں میں سے ایک زبان اُردو بھی ہوناچاہیے۔اِس سے نہ صرف ہمارے تہذیبی ورثہ تک پہنچنے میںآسانی ہوگی بلکہ ہم کہیں بھی جائیں گے تو اپنی اُسی زبان کی بنیاد پر ہی پہچانے جائیںگے لہٰذا، اگر ہمیں اپنی پہچان باقی رکھنی ہے تو اِس عنصر کو گانٹھ کے طور پر باندھ لیناچاہیے کہ تین زبانوں میںسے ایک زبان اُردو بھی ہو۔
حکومت ہند نے ہندوستانی نظام تعلیم میں یہ اِلتزام رکھاہے کہ کسی بھی ہندوستانی اِسکول میںپڑھنے والے طالب علم کو تین زبانیں پڑھنی چاہیے۔اب اِس میںیہ قید نہیںہے کہ وہ پرائیویٹ ہو یاسرکاری۔بہرحال کسی بھی طرح کا اِسکول ہو تین زبانیں بچوں کو پڑھائی جائیںگی۔تواب ہم اہل اُردو کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ اپنے حقوق کا مطالبہ کریںاوراُس کی بحالی کے لیے جدوجہدکریں۔
سہ لسانی منصوبہ کے تحت کوئی بچہ اِسکولی سطح پر تین زبانیں منتخب کرسکتا ہے۔اُس میںسے ایک زبان جدید یوروپی طبقہ سے ہوںگی اور دوسری زبان مادری ہوگی اور تیسری زبان ہندوستانی ریاستوں کے رابطہ کی زبان ہوگی۔اب اِن میںسے کسی بھی زبان کو زبان اوّل اور اِسی طرح کے زمروں میںتقسیم کرکے پڑھاجاسکتاہے۔ اگر کوئی طالب علم انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کرتا ہے توہ وہ بھی زبانِ اوّل کے طورپر اُردو کو منتخب کرسکتا ہے۔
اِن تمام حقائق اور سہولیات کے باوجود آج زبانِ طبقہ اُردو میںزبان کے تئیں جو سردمہری پائی جاتی ہے وہ کس عنصرکی جانب غمازی کرتی ہے۔ کیاہمارا مقصد محض مادّہ کی حصولیابی اور دُنیا میں زیادہ سے زیادہ وسائل اِکٹھاکرنااور اُنھیں صرف کرناہی ہمارا مقصد رہ گیا ہے۔اگر یہی مقصد ہے تو پھر کوئی بات نہیں ہے۔ مزید سوچنے کی زحمت گوارہ نہ کریں۔