اِسمال اسکیل انڈسٹریز کے بچاؤ کیلئے اقدامات

   

جئے جاتے ہیں ہم زہر غم ایام پی پی کر!
اجل بھی نام رکھ لے اب حیاتِ جاوداں اپنا
اِسمال اسکیل انڈسٹریز کے بچاؤ کیلئے اقدامات
ہندوستان کی معیشت کو سہارا دینے والوں میں اِسمال اسکیل انڈسٹریز کا بھی اہم رول ہوتا ہے۔ کورونا وائرس کی وباء پر قابو پانے کے لئے 22 مارچ سے ہندوستان بھر میں کاروبار لاک ڈاؤن کا شکار ہے۔ بڑی صنعتیں تو بند ہی ہیں، چھوٹے کاروبار بُری طرح متاثر ہیں۔ تلنگانہ میں خاص کر حیدرآباد، اطراف و اکناف میں موجودہ مائیکرو، اِسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزس کے لئے لاک ڈاؤن تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ تلنگانہ میں ایک اندازے کے مطابق 2.3 ملین مائیکرو، اِسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزس کام کرتے ہیں۔ صنعتی علاقوں کاٹے دھن، صنعت نگر، بالانگر، پٹن چیرو میں واقع چھوٹی صنعتوں میں کام ٹھپ ہوچکا ہے۔ ان کے احیاء کے لئے حکومت کے پاس فی الحال کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ان صنعتوں میں زیادہ تر ضروری خدمات کے شعبوں میں کام کرتے ہیں جیسے صحت عامہ اور غذائی تیاری کی صنعتیں بھی ہیں جو اس وقت دم توڑ رہی ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان شعبوں میں کوئی پیداوار نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد ان کمپنیوں کی صورتِ حال کیا ہوگی اور مزدوروں کی دستیابی کا مسئلہ کس قدر سنگین ہوگا؟ یہ تشویش ناک بات ہے۔ کئی مزدور تو اپنی آبائی ریاستوں کو جاچکے ہیں۔ ان کی دوبارہ واپسی کی توقع کم ہے۔ آئندہ چار پانچ ماہ تک ملک کی چھوٹی صنعتوں کی بقاء ایک نازک مسئلہ ہوگی۔ اس لئے مرکز میں اور ریاستی حکومتوں کو اب سے ہی وہ کمپنیوں کی بقاء کے لئے راحت پیاکیج کی تیاری کرنی ہوگی۔ تلنگانہ میں چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے والے اور ہُنرمندوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن نے ان تمام کی روز مرہ کی زندگیوں کو منجمد کردیا ہے۔ ان کے کاروبار کے احیاء کو یقینی بنانے کے لئے سرکاری سطح پر ٹھوس اقدامات وقت کا تقاضہ کہا جارہا ہے۔ ان چھوٹی صنعتوں کے لئے 5 تا 6 لاکھ کروڑ روپئے کے راحت پیاکیج کی سفارش کی گئی ہے۔ اس پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وائرس پر قابو پانے اور عوام کو راحت فراہم کرنے پر دھیان دینے سے زیادہ اس حکومت کو حصول مصارف میں زیادہ دلچسپی ہے۔ ہزاروں کروڑ روپئے سے مجسمہ بنانے اور عمارتوں کو کھڑا کرنے کے منصوبے فی الحال ہندوستان کے عوام کے کسی کام نہیں آئیں گے۔ حکومت نے پارلیمنٹ کی موجودہ عمارت کے قریب نئی پارلیمنٹ عمارت بنانے کی تجویز کو بھی منظوری دی ہے۔ اگرچہ کہ پارلیمنٹ سے متصل اراضی پر نئی عمارت کی تعمیر کا مسئلہ قانونی چارہ جوئی کا شکار ہے۔ 922 کروڑ روپئے کی لاگت سے بنائی جانے والی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے منصوبہ کو ترک بھی کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ صدر کانگریس سونیا گاندھی نے وزیراعظم مودی کو روانہ کردہ پانچ تجاویز میں سے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کو روکنے کی بھی تجویز شامل کی تھی۔ حکومت کو کورونا وائرس پر قابو پانے کے لئے کثیر رقم کی ضرورت ہے اور حکومت اس وقت غیر ضروری تعمیراتی کام انجام دینے کے منصوبہ کو ترک کرے۔ حکومت نے کانگریس لیڈر کی تجاویز کو یکسر ہی نظرانداز کردیا۔ مودی حکومت نے جس طرح کورونا وائرس کو ملک میں پھیلنے سے روکنے میں لاپرواہی کی اور جنوری سے مارچ کے دوران مدھیہ پردیش کی حکومت گرانے، صدر امریکہ ٹرمپ کے دورۂ ہندوستان کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف رہی اور جب وائرس کا قہر بڑھنے لگا تو 24 مارچ کو بغیر کسی پیشگی نوٹس کو ہندوستان کی 130 کروڑ آبادی پر لاک ڈاؤن لگادیا جو غیر منصوبہ بند تھا، جس سے بھیانک نتائج دھیرے دھیرے سامنے آرہے ہیں۔ کورونا وائرس اس طرح موجود ہے۔ لہٰذا عوام کو حکومت کی خرابیوں سے پیش آنے والے مسائل کا سامنا کرنے کے لئے ابھی سے تیار رہنا ہوگا۔
کورونا وائرس کا پھیلاؤ تشویشناک
ہندوستان میں لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل آوری کے باوجود کورونا وائرس کا پھیلاؤ تشویشناک ہے ۔ اب تک 37,000 سے زائد افراد متاثر اور 1250 اموات ریکارڈ کی جاچکی ہیں ۔ دارالحکومت دہلی میں تمام 11 اضلاع کو ریڈ زون برقرار رکھا گیا ہے ۔ سی آر پی ایف کے 122 جوان کورونا وائرس سے متاثر ہیں ۔ مرکزی حکومت نے وائرس سے نمٹنے کے لیے بہت ہی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے ہیں ۔ یہ ایسے قدم ہیں جو 130 کروڑ آبادی والے ملک کے لیے ناکافی ہیں ۔ حکومت کی ان کوششوں کو ملک کے چھوٹے ملکوں میں کئے گئے اقدامات سے تقابل کیا جاسکتا ہے ۔ جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ملک جو کام کررہے ہیں اگر وہی کام ہندوستان جیسے کثیر آبادی والے ملک میں کئے جائیں تو پھر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد نہیں ملے گی ۔ لاک ڈاؤن میں تیسری توسیع کے باوجود وائرس کا اثر کم نہیں ہورہا ہے ۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ حکومت نے ٹسٹنگ اور علاج و احتیاط کے معاملہ کو صرف لاک ڈاؤن تک محدود رکھا ہے ۔ اس سے ہٹ کر طبی نکتہ نظر سے کوئی خاص پہل نہیں کی ہے ۔ یہ ہندوستان کی کثیر آبادی کے لیے تشویش کی بات ہے ۔ اگر لاک ڈاؤن یوں ہی بتدریج جاری رکھتے ہوئے اصل اقدامات اور انتظامات سے لاپرواہی برتی جائے تو پھر مہلک وائرس کے نتائج بھیانک ہوں گے ۔ مرکز کی مودی حکومت نے اب تک ریاستوں کے چیف منسٹرس سے ویڈیو کانفرنس تک ہی خود کو مصروف رکھا ہے ۔ ملک کو معاشی تباہی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ یہ الگ سنگین صورتحال ہے ۔ دنیا کے تمام بڑی طاقتور ممالک نے وائرس سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ معیشت کو سہارا دینے والے اقدامات کئے ہیں اس کے باوجود یہ طاقتور ممالک کورونا وائرس کے قہر سے بے بس نظر آرہے ہیں ۔ ان ملکوں کے مقابل ہندوستان کو بہت زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ۔ مودی حکومت پر اب یہ انگلیاں اٹھنا غیر واجبی نہیں کہ اس نے کورونا وائرس کو روکنے کے لیے تاخیر سے کارروائی کی ۔ اگر دسمبر 2019 سے ہی وائرس کی روک تھام کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کیا جاتا تو یہ دوسرے ملکوں سے ہندوستان نہیں پہونچتا ۔ مودی حکومت نے ملک کی سرحدوں کو مارچ کے تیسرے ہفتہ تک کھلی رکھی اور بین الاقوامی پروازوں کو جاری رکھا نتیجہ میں کئی بیرونی اور ہندوستانی مسافرین کی آمد و رفت رہی ۔ ایرپورٹس پر کورونا وائرس کے ٹسٹنگ انتظامات نہیں کئے گئے اور جب یہ وائرس ملک میں باقاعدہ اپنے قدم مضبوط کرچکا تو حکومت بیدار ہو کر ایرپورٹس پر پابندیاں لگائی ۔ ہندوستانی آبادی کو لاحق خطرات کا اندازہ نہ کرنا بھی ایک ذمہ دار حکومت کی سنگین لاپرواہی ہے۔ مودی حکومت گذشتہ 35 دنوں کے لاک ڈاون کے دوران اپنی کارکردگی سے عوام کو مایوس کرچکی ہے۔