اپوزیشن کا اجلاس ‘ اچھی علامت

   

زندگی بڑھتی ہے آگے ان کے تیور دیکھ کر
وقت بھی پہچانتا ہے تیرے دیوانوں کا رخ
اپوزیشن کا اجلاس ‘ اچھی علامت
کورونا وائرس کی وباء پھوٹ پڑنے کے بعد سے ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں بالکل بند ہیں بلکہ ان پر پابندی عائد ہے ۔ کورونا کی وجہ سے جو تحدیدات عائد کی گئی ہیں ان کے نتیجہ میں مذہبی ‘ سیاسی اور ثقافتی سرگرمیوں کو روک دیا گیا ہے تاہم کورونا وباء نے جس طرح سے شدت اختیار کرلی ہے اور اس کے عوام اور خاص طور پر غریبوں اور مائیگرنٹ ورکرس کی زندگیوں پر جو اثرات ہوئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ احساس ضرور پیدا ہو رہا تھا کہ ایک مضبوط و مستحکم اپوزیشن ہندوستان جیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کیلئے بھی بہت زیادہ ضروری ہے ۔ مرکزی حکومت کے اقدامات سے یہ تاثر عام ہونے لگا تھا کہ ملک میں سوائے حکومت کے کسی اور سیاسی جماعت کا اور خاص طور پر اپوزیشن کا تو کوئی وجود ہی نہیں رہ گیا ہے ۔ کانگریس قائدین راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی وقفہ وقفہ سے کچھ بیانات جاری کرتے ہوئے حکومت کو نشانہ بنا رہے تھے اور کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے بھی حکومت سے وزیر اعظم کئیرس فنڈ کی تفصیلات سے متعلق سوال کیا تھا ۔ بی جے پی کارکنوں کی جانب سے سونیا گاندھی کے خلاف کرناٹک میںایف آئی آر درج کروائی گئی ۔ اس کے علاوہ صرف کمیونسٹ جماعتیں تھیں جو وقفہ وقفہ سے کوئی بیان جاری کرتے ہوئے اپنے وجود کا احساس دلا رہی تھیں۔ تاہم آج کانگریس صدر سونیا گاندھی کی قیادت میں ملک کی 22 اپوزیشن جماعتوں نے ایک اجلاس ( آن لائین ) منعقد کرتے ہوئے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور حکومت کی جانب سے کورونا وباء سے نمٹنے کیلئے کئے جانے والے اقدامات پر سوال بھی کیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ہر غریب خاندان کے اکاونٹ میں 7,500 روپئے جمع کروائے ۔ کانگریس کا مسلسل یہی کہنا رہا تھا کہ حکومت کو بینکوں اور دوسرے شعبوں کو فنڈز فراہم کرنے کی بجائے غریب عوام کی جیبوں میںراست رقوم منتقل کی جانی چاہئے ۔ اب اسی مطالبہ کو ملک کی جملہ 22 اپوزیشن جماعتوں کی بھی تائید حاصل ہوئی ہے اور حکومت پر دباو میں ایک طرح سے اضافہ ہوا ہے کہ وہ غریبوں کی راست مدد کرے ۔
کورونا وباء کے دور اور لاک ڈاون میں حکومت نے دو مرتبہ امدادی پیاکیج کا اعلان کیا تھا ۔ پہلے ایک لاکھ 70ہزار کروڑ روپئے کے پیاکیج کا اعلان ہوا اور پھر 20 لاکھ کروڑ روپئے کے پیاکیج کا اعلان کیا گیا ۔ یہ اعداد و شمار حقیقت میں توبہت زیادہ ہیں لیکن ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی کہ ان پیاکیجس کی وجہ سے غریبوں کو کوئی راحت ملی ہو ۔ آج سارے ہندوستان میں مائیگرنٹ ورکرس کا مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ کہیں کوئی لڑکی اپنے زخمی والد کو 1200 کیلومیٹر تک سیکل پر لے کر سفر کرتی ہے ۔ کہیں حاملہ خواتین کی سڑکوں پر زچگیاں ہوجاتی ہیں۔ کہیں پیدل چلتے ورکرس کے پیروں میں چھالے پڑ جاتے ہیں۔ کہیں پٹریوں پر درجنوں مزدور موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ کہیں ٹرکس میں ٹکر ہوجاتی ہے اور جانیں انہیں مزدوروں کی جاتی ہیں۔ ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی کہ مرکز کے پیاکیج کے نتیجہ میں مائیگرنٹ ورکرس کیلئے سفر کا اہتمام کیا گیا ہو یا انہیں کسی طرح کی راحت نصیب ہوئی ہو ۔ اس کے برخلاف جب کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی نے مائیگرنٹس کیلئے بسیں فراہم کرنے کا اعلان کیا تو اترپردیش کی آدتیہ ناتھ حکومت نے اس پر بھی سیاست کی اور بسوںکو محض اس لئے چلانے کی اجازت نہیں دی گئی کہ یہ کانگریس کی جانب سے فراہم کی جا رہی تھیں۔ مختلف بہانے کرتے ہوئے بسوں کو چلانے کی اجازت نہیں دی گئی اور اس فیصلے پر تو گودی میڈیا اور زر خرید اینکرس نے بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کی تھی ۔
آج جب سونیا گاندھی نے اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس منعقد کیا تو یہ ایک اچھی علامت اور اچھی شروعات ضرور کہی جاسکتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کو اپنی محدود تعداد اور کم طاقت کے احساس سے خود کو باہر لانے اور حکومت کو گھیرنے اور بنیادی مسائل اور عوام کی تکالیف پر سوال کرنے کیلئے آگے آنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی ۔ کچھ جماعتوںنے حالانکہ اس اجلاس میں شرکت نہیں کی لیکن آئندہ وقتوں میں ان کی بھی شرکت کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہونے اورا پنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف اپنے وجود کا احساس دلایا جاسکے بلکہ ملک کے عوام اور غریبوں کو درپیش مسائل پر حکومت سے سوال کیا جاسکے اور اس سے جواب طلب کیا جاسکے ۔