اچھے دنوں کا آخر ہو انتظار کب تک

   

اچھے دن کا نعرہ … عوام کے برے دن میں تبدیل
صرف ویکسین نہیں روزی روٹی بھی ضروری

رشیدالدین
’’اچھے دن‘‘ یہ لفظ سنتے ہی خوشی اور مسرت کا احساس انسان میں ناامیدی اور مایوسی کو دور کرتا ہے ۔ انسان فطرتاً خوش گمان ثابت ہوا ہے اور وہ کسی بھی اچھی خبر اور کسی کے وعدہ سے متاثر ہوکر بھلائی کی امیدیں وابستہ کرلیتا ہے۔ انسان کی اس سادگی اور بھولے پن کا اکثر استحصال ہوا ہے ۔ کبھی سیاستدانوں تو کبھی سرمایہ داروں نے خوش کن باتوں کے ذریعہ اپنے مفادات کی تکمیل کرلی ۔ ملک میں 7 سال قبل اچھے دن کا نعرہ لگایا گیا۔ اس نعرہ میں عوام کو امید کی کرن دکھائی دی۔ عوام کو یقین ہوگیا کہ ان کی زندگی سے تاریکی کا خاتمہ ہوگا اور روشن مستقبل رہے گا ۔ کسی بھی انتخابات میں اس طرح کا نعرہ نہیں لگا تھا ، لہذا ہر کوئی اس نعرہ کی جاذبیت کا شکار ہی نہیں بلکہ اسیر ہوگیا۔ نعرہ لگانے والوں کو شائد اس قدر اثر انداز ہونے کی توقع نہیں تھی۔ کسی کے شان و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اچھے دن کے نعرہ کے پیچھے تاریکی اور مسائل منتظر ہوں گے ۔ جس طرح ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی، اسی طرح اچھے دن کے لفظ میں سچائی اور خوشی نہیں تھی ۔ جس طرح دھوکہ باز تاجر ناقص اشیاء کی فروخت کے لئے دلکش پیاکنگ کا سہارا لیتے ہیں، ٹھیک اسی طرح سیاستداں اور سیاسی جماعتیں خوش کن وعدوں کے ذریعہ رائے دہندوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں شائد پہلی مرتبہ عوام کو دلفریب نعرے کے ذریعہ دھوکہ دہی کا یہ سب سے بڑا معاملہ ہے ۔

کسے پتہ تھا کہ اچھے دن کا نعرہ ملک پر عذاب بن کر ٹوٹ پڑے گا ۔ عوام کا کہنا ہے کہ اچھے دن کا نعرہ اپنی تاثیر میں الٹا ثابت ہوا اور جسے خوشخبری سمجھا جارہا تھا ، وہ دراصل نحوست اور بدشگونی ثابت ہوا۔ جس طرح کسی جانور کے شکار کے لئے جال بچھاکر بھیڑ بکری کو باندھ کر رکھا جاتا ہے ، وہی چال بی جے پی نے 2014 ء میں چلی۔ اچھے دن پر بھروسہ کرنے کا خمیازہ عوام 7 برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ روزانہ نت نئے مسائل میں اضافہ کے سوا راحت کی تو امید نظر نہیں آتی۔ اچھے دن کے سہارے اقتدار کے 5 سال مکمل ہوتے ہی 2019 ء میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگایا گیا اور عوام پھر ایک بار دھوکہ کھا گئے ۔ نریندر مودی کے 7 سال دور حکومت میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جس میں مسائل کا سامنا نہ ہو۔ کوئی گھڑی اور کوئی لمحہ بھی اچھے دن کے احساس کے ساتھ نہیں آیا ۔ لوگوں کے قدم کو بدشگونی تصور کیا جاتا ہے لیکن یہاں تو افراد اور الفاظ دونوں بدشگون نکلے ۔ نہ ہی کسی کے لئے اچھے دن آئے اور نہ کسی کا وکاس ہوا۔ اچھے دن تو بی جے پی اور سنگھ پریوار کے آئے جبکہ وکاس حکومت کے قریبی صنعتی گھرانوں کا ہوا ۔ عوام اس مطالبہ پر مجبور ہوگئے کہ مودی جی ہمارے پرانے برے دنوں کو لوٹادیجئے ۔ نوٹ بندی کے نام پر عوام کی جیب پر ڈاکہ، کیا اچھے دن ہے ؟ مہنگائی ، بیروزگاری اوربیماری میں اضافہ ، کیا اچھے دن کی نشانی ہے ؟ بینکوں کو لوٹنے کے اسکامس اور لوٹیروں کا ملک سے فرار ہونا بھی شائد اچھے دن کی علامت ہے۔ جارحانہ فرقہ پرستی ، لو جہاد ، گاؤ رکھشا اور گھر واپسی کے نام پر ہجومی تشدد میں ہلاکتیں ۔ کشمیر سے 370 کی برخواستگی ، عوامی قائدین کی محروسی، طلاق ثلاثہ پر پابندی کے ذریعہ شریعت میں مداخلت ، بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر، شہریت ترمیمی قانون کا نفاذ ، این آر سی ، این پی آر ، یکساں سیول کوڈ کی تیاری ، یو پی میں مساجد کی شہادت ، حکومت کے خلاف آواز اٹھانے پر جھوٹے مقدمات ، کسانوں کے خلاف سیاہ قوانین ، کورونا وباء سے چار لاکھ کے قریب اموات ، کروڑہا افراد کی روزگار سے محرومی۔ الغرض ایک ہنگامہ محشر ہو تو اس کو بھولوں، سینکڑوں باتوں کا رہ رہ کے خیال آتا ہے کے مصداق تباہی و بربادی کی ایک طویل داستان ہیں۔ یہ تمام شائد اچھے دن کے زمرہ میں آئیں گے ۔ کورونا کے نام پر موت کا ننگا ناچ اور دریاؤں میں ہزاروں بہتی لاشیں جنہیں کتے اور پرندے نوچ کر کھا رہے تھے ۔

تاریخ انسانی نے شائد ہی کبھی ایسا دلخراش منظر دیکھا ہوگا لیکن بی جے پی اور ان کے بھکتوں کے لئے یہ تمام اچھے دن کا حصہ ہیں۔ غریب اور متوسط طبقات کی معیشت تباہ ہوگئی ۔ کل کے دولتمند آج کنگال ہوگئے۔ کروڑہا افراد روزگار سے محروم ہوکر سڑکوں پر آگئے ۔ اسکول اور کالجس میں ملک کے مستقبل کو تیار کرنے والے اساتذہ آج کل ترکاری اور میوہ فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ لاکھوں مائیگرنٹ ورکرس فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ سڑک کے راستہ ہزاروں کیلو میٹر کا فاصلہ پیدل طئے کرنے کے دوران کئی ورکرس کی موت واقع ہوئی ۔ یہ سب ہوتا رہا لیکن حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگیں، وہ اس لئے کہ یہ تمام اچھے دن اور سب کا وکاس کا حصہ تھا۔ گزشتہ دیڑھ سال میں وقفہ وقفہ سے لاک ڈاؤن نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ آدمی جس قدر بڑا ہو اسے اتنا ہی زیادہ نقصان ہوا ۔ دوسری لہر کے ضمن میں کئی ریاستوں میں لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا اور ایک ماہ گزرنے کے بعد ان لاک سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ لاک ڈاؤن سے بازار بند ہوئے تھے اور ان لاک سے وہی بازار کھل رہے ہیں۔ بازار تو کھلے ہیں لیکن خریداری کیلئے عوام کے پاس پیسہ کہاں ہے۔ بازار تو کھل گئے لیکن روزی روٹی کا مسئلہ برقرار ہے ۔ جن کا روزگار ختم ہوگیا ، ان کا کیا حال ہوگا ۔ مسائل سے دلبرداشت ہوکر کئی خاندانوں نے خودکشی کرلی ۔ مودی جی 7 برس گزرنے کے بعد کم از کم اب تو بتادیجئے کہ آخر وہ اچھے دن کب آئیں گے ؟
کورونا وباء اور لاک ڈاؤن سے انسان کو جو سبق حاصل ہوا ہے، وہ یہ کہ جس کی مصیبت وہ اٹھائے۔ ہر شخص اپنا جنازہ اپنے کاندھوں پر لے کر چلنے کا عادی ہوچکا ہے۔ حکومتوں سے امداد یا راحت کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ مرکز ہو یا ریاستیں نظام حکومت ٹھپ ہوچکا ہے۔ ایڈمنسٹریشن کا دور دور تک پتہ نہیں۔ حکومتیں اور کرسی پر فائز افراد اپنی ذمہ داری بھول کر صرف ویکسین اور ٹیکہ اندازی کی بات کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی جنہوں نے پہلے لاک ڈاؤن کے موقع پر دو لاکھ کروڑ کے پیاکیج کا جو اعلان کیا تھا ، اس کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔ مودی کی زبان پر اب عوام کی امداد اور بھلائی کے بجائے صرف ویکسین اور ٹیکہ اندازی کے سواء کچھ نہیں ہے۔ ویکسین کوئی آبِ حیات نہیں کہ جس کی خوراک لیتے ہی کورونا سے نجات حاصل ہوجائے۔ ویکسین دراصل احتیاطی اقدام کے طور پر تیار کی گئی دوا ہے جو ابھی تجرباتی مرحلہ میں ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور دیگر اداروں نے ہنگامی صورت میں ویکسین کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ ویکسین سے زیادہ عوام کے روزی روٹی کے مسائل پر توجہ کی ضرورت ہے۔ جب پیٹ میں غذا نہ ہو تو پھر قوت مدافعت خود بہ خود کم ہوجائے گی اور کوئی بھی وائرس حملہ آور ہوسکتا ہے ۔ عوام کے لئے ملازمت اور غذا کا انتظام کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ مودی نے اقتدار کے 100 دنوں میں قیمتوں پر قابو پانے اور ہر سال ایک کروڑ افراد کو روزگار دینے کا ارادہ کیا تھا ۔ یہ دونوں وعدے اچھے دن کی طرح الٹے ثابت ہوئے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو نریندر مودی کی ہر بات کو برعکس تصور کرنا پڑے گا۔ حکومت کو روٹی روزگار کے علاوہ عوام کے علاج اور ادویات کی فراہمی پر توجہ دینی چاہئے۔ ویکسین سے پہلے علاج کے بہتر انتظامات کرائے جائیں ۔ سارے ملک میں ویکسین کا ہوا کھڑا کیاجارہا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش ہے کہ ویکسین ہی وائرس سے نجات کا واحد ذریعہ ہے ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ چھوٹے پڑوسی ممالک کورونا سے نجات حاصل کرچکے ہیں لیکن ہندوستان میں وائرس مختلف مراحل اور لہر کی صورت میں اپنا اثر دکھا رہا ہے۔ آخر کورونا کی کتنی لہریں ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لیں گی ؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ کورونا وائرس کو دنیا بھر میں اپنے قیام کیلئے ہندوستان بہترین جگہ کے طور پر پسند آگئی ہے۔ دیگر ممالک نے بہتر علاج کے ذریعہ کورونا کو بھاگنے پر مجبور کردیا تھا لیکن ہندوستان میں ہر کسی کیلئے ٹھکانہ موجود ہے۔ دنیا میں جس کسی کو پناہ نہ ملے وہ ہندوستان میں بآسانی پناہ حاصل کرسکتا ہیں۔ اس کی تازہ مثال تسلیمہ نسرین ہے، جسے دنیا نے ٹھکرا دیا لیکن ہندوستان نے اپنا لیا ۔ وائرس کو اگر ہندوستان کا ماحول پسند آجائے تو ہوسکتا ہے کہ وہ شہریت کے لئے درخواست دے ۔ نریندر مودی حکومت کے پاس شہریت فراہم کرنے کی گنجائش موجود ہے اور وہ حال ہی میں وضع کردہ شہریت ترمیمی قانون کے تحت کورونا کو بھی ہندوستانی ہونے کی سند دے سکتی ہے۔ اس قانون میں پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو پناہ گزینوں کو شہریت کی گنجائش ہے۔ کورونا بھی چونکہ ملک کے باہر سے آرہا ہے ، لہذا حکومت کو شہریت دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ اگر کورونا ہندوستان میں مستقل طورپر ڈیرہ ڈال دے تو نریندر مودی حکومت کو عوام سے کئے گئے وعدوں سے توجہ ہٹاکر دوبارہ انتخابات میں کامیابی میں مدد مل سکتی ہے۔ 2024 ء تک بی جے پی کو کورونا پر سیاست کرتے ہوئے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے سواء کوئی راستہ نہیں۔ اگر کورونا پر قابو پالیا جائے تو پھر 2024 ء میں مودی کی گھر واپسی یقینی ہوجائے گی۔ لہذا مودی اور بی جے پی کو کورونا سے دوستی کرنی ہی ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کورونا کو مودی کی دوستی پسند آئے گی یا پھر وہ ملک کے عوام کے حق میں کھڑا ہوگا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
وعدوں پہ تیرے کس کو ہو اعتبار کب تک
اچھے دنوں کا آخر ہو انتظار کب تک