اڈانی کے شئیرس کی گراوٹ

   

گذشتہ ایک ہفتے سے اڈانی گروپ کے شئیرس کی قیمتوں میں مسلسل گراوٹ درج کی جا رہی ہے ۔ ہزاروں کروڑ روپئے کے نقصانات کا سلسلہ جاری ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ اس گراوٹ کی وجہ سے عوام کا ہزاروں کروڑ روپیہ ضائع ہوگیا ہے اور وہ نقصانات کا شکار ہوگئے ہیں۔ خود اڈانی کی دولت میں کمی آئی ہے ۔ اڈانی اب دنیا کے دوسرے دولتمند ترین انسان بھی نہیں رہے اور نہ ہی وہ ہندوستان کے سب سے دولت مند شخص برقرار رہے ہیں۔ اس معاملے میں انہوں نے جہاں مکیش امبانی کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اب وہیں مکیش امبانی پھر سے ہندوستان کے سب سے زیادہ دولتمند ترین شخص بن گئے ہیں۔ اسٹاک مارکٹ میںجو اتھل پتھل اڈانی گروپ کی وجہ سے مچی ہے اس کے نتیجہ میں بھی اسٹاک مارکٹ پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو رہا ہے اور سرمایہ کار اپنے پیسوں کیلئے فکرمند ہوتے نظر آرہے ہیں۔ جہاں تک اڈانی گروپ کی مالی قدر میں گراوٹ کی بات ہے تو یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اس گروپ کو عروج کس قدر تیزی سے حاصل ہوا تھا ۔ صرف چند برس قبل گوتم اڈانی ہندوستان کے دولتمند ترین افراد کی فہرست میں کہیں بہت پیچھے تھے ۔ وہ ٹاپ 100 میں بھی شامل نہیں تھے ۔ تاہم مرکز میں نریندر مودی حکومت کے قیام کے بعد اڈانی گروپ کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی اور اس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں بڑے بڑے کنٹراکٹس حاصل کئے اور خوب مال کمایا ۔ تاہم کچھ شعبوں میں واقعی ترقی کرنے کے بعد دوسرے کاروباری ادروں کی قدر میں ضرورت سے کافی زیادہ اضافہ کردیا گیا اور اس کے ذریعہ عوام میں ایک ہوا کھڑا کرتے ہوئے اڈانی گروپ نے اس کا فائدہ اٹھایا ۔ عوام کا اعتماد جیتنے کیلئے جو اقدامات کئے گئے تھے ان کے تعلق سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ قدر میں اضافہ حقیقی نہیں تھا اور یہ محض ایک فرضی صورتحال تھی جسے پیش کرتے ہوئے کمپنی نے عوام کو اور خاص طور پر سرمایہ کاروں کو گمراہ کیا تھا اور اس کے ذریعہ خود کمپنی نے بھاری کمائی کی تھی ۔ راتوں رات کسی بھی کارپوریٹ گروپ کے مالیہ میں کمی اور قدر میں گراوٹ کا حالیہ کچھ عرصہ میں یہ پہلا اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے ۔
اڈانی گروپ کے تعلق سے ہنڈربرگ نامی ادارے کی جانب سے جو رپورٹ جاری کی گئی تھی اس نے اس گروپ کو ہندوستان میں سر فہرست سے کہیںدور پیچھے لا کھڑا کردیا ہے ۔ ایک طرح کا معاشی کہرام مچ گیا ہے اور کمپنی کے شئیرس کی قیمتوں میں جو گراوٹ آئی ہے اس کی ماضی قریب میں شائد ہی کوئی مثال مل پائے ۔ کئی کمپنیوں کی قدر میںایک تہائی تک گراوٹ آچکی ہے اور صورتحال اس قدر سنگین ہوگئی ہے کہ کمپنی نے اپنے کچھ ایف پی او واپس بھی لے لئے ہیں اور یہ اعلان کردیا ہے کہ سرمایہ کاروں کا پیسہ انہیں واپس کردیا جائیگا ۔ یہ حالانکہ عوام کا اعتماد بحال کرنے کی سمت ایک کوشش ضرور کہی جاسکتی ہے لیکن عوام میں جو عدم اطمینان پیدا ہوگیا ہے اسے دور کرنا آسان نہیں ہوسکتا ۔ اس کے علاوہ عوام کا اور سرمایہ کاروں کا جو بھاری نقصان ہوا ہے اس کی تلافی بھی ممکن نہیں ہے ۔ جو ایف پی او واپس لئے جا رہے ہیں ان کا پیسے ضرورکمپنی واپس کرے گی لیکن جو نقصان شئیرس اور کمپنیوں کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے ہوچکا ہے اس کی تلافی ممکن ہی نہیں ہے ۔ کچھ گوشوں کا یہ استدلا بھی ہے کہ یہ سارا کچھ محض فرضی دعووں کی وجہ سے ہوا ہے اور کمپنی نے سرمایہ کاروں کو گمراہ کرتے ہوئے اپنی قدر میں کئی گنا زیادہ اضافہ کرتے ہوئے دکھایا تھا ۔ حالانکہ اڈانی گروپ اور اس کے سربراہ گوتم اڈانی نے اس طرح کے کسی بھی امکان کو مسترد کردیا ہے اور ان الزامات کی تردید کی ہے لیکن یہ جو الزام عائد کئے گئے ہیں ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے ۔
جہاں تک حکومت کا سوال ہے تو حکومت اس معاملے پر کوئی بھی اقدام کرنے سے گریز کر رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ایک آدھ واقعہ سے مارکٹ پر کوئی اثر نہیںپڑنے والا ہے ۔ مارکٹ پر بھلے ہی اس طرح کے واقعہ سے کوئی اثر نہ پڑے لیکن اس کے نتیجہ میں سرمایہ کاروں کا جو نقصان ہوا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ملک کے کارپوریٹس کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن اگر کسی ادارے یا کمپنی کی جانب سے اگر اپنی قدر اور شئیرس کی قدر میں فرضی اضافہ کرتے ہوئے پیش کیا جاتا ہے تو حکومت کو اس کا نوٹ لیتے ہوئے تحقیقات سے گریز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو برقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔