اکالے سے رشتہ ٹوٹا‘ بی جے پی نے کھولا نیا پلان۔ موافق ہندوتوا سکھ چہروں کو کیاآگے

,

   

دہلی میں بی جے پی اور شرومن اکالی دل کے درمیان میں الائنس ختم ہونے کا سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ مذکورہ پارٹی کے جوائنٹ انچارج دہلی اسمبلی انتخابات کے لئے بی جے پی کے سکھ چہرے یونین منسٹر ہردیپ پوری کے تحت ہوئی ہے۔محض پچھلے سال پوری نے امرتسر لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑا تھا مگر وہ ہار گئے

نئی دہلی۔ محض یہ اتفاق نہیں ہے۔ اکالیوں سے اتحادختم کرنا بی جے پی دوراندیش منصوبہ رہا ہے‘ تاکہ وہ موافق ہندوتوا سکھ قیادت کو آگے بڑھاسکیں۔اور پوری اس کا ایک اہم عنصر ہیں۔

فی الحال نریندر مودی حکومت میں سابق سفیر پوری سیول ایویشن وزیر ہیں۔ مگر ان کے سیاسی حقیقت یہ ہے کہ وہ 1970کے دہے میں اے بی وی پی کی حمایت کے ساتھ ایک اسٹوڈنٹ لیڈر رہیں ہیں‘ راشٹرایہ سیوم سیوک سنگھ کی تنظیم ہے اے بی وی پی۔

پوری کے نگرانی میں مذکورہ بی جے پی اب کوشش کررہی ہے کہ وہ موافق ہندوتوا سکھ قیادت کو آگے بڑھائے گی۔ اس کی مثال دہلی میں کچھ سکھ امیدواروں کے انتخاب ہے۔

وہیں تمیار پور کے امیدوار سریندر پال سنگھ بٹو جو کانگریس کے سابق رکن اسمبلی اور دیگر نے کھل کر موافق ہندوتوا کی بات کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر ویسٹ دہلی کے راجندر نگھ میں انہوں نے آر پی سنگھ کو منتخب کیاہے جو 2013میں یہاں سے جیت حاصل کئے تھے۔

پارٹی کے متعلق وہ نمایاں گفتگو کرتے ہیں اور ٹی وی مباحثوں میں بھی اکثر دیکھائی دیتے ہیں۔ مبینہ طور پر کہاجاتا ہے کہ آر پی سنگھ آرایس ایس کی ملحقہ تنظیم راشٹرایہ سکھ سنگت کے کئی سالوں سے رکن ہیں۔بی جے پی‘ آر ایس اور سکھ جماعتوں کے درمیان میں ہونے والی کشمکش کا ایک اہم عنصرسکھ سنگت ہے۔

آرپی سنگھ کو سکھ کمیونٹی کی جانب سے جون2019میں پیش ائے مکھرجی نگر واقعہ کے بعد ان کے ردعمل پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ جب ایک سکھ اٹوڈرائیور کو پولیس نے پیٹاتھا۔

مذکورہ حملے کے بعد دہلی کے سکھ سڑکوں پر اتر گئے تھے جو مکھرجی نگر پولیس اسٹیشن کے باہر اکٹھا ہوئے۔ مگر آر پی سنگھ پر الزام لگاکے انہوں نے موافق خالصتان نعرے بازی کی ہے۔

سب سے زیادہ توجہہ ویسٹ دہلی میں ہری نگر سے امیدوار بنے تجیندر پال سنگھ بگا کی سماجی سرگرمیوں پر ہے۔ ٹی شرٹ کے کاروبار او رٹوئٹر پر سرگرمیوں کے علاوہ سب سے موضوع بحث ان کا اپنابیان جس میں انہوں نے کہا ہے کہ بچپن ہی سے وہ آر ایس ایس کی شاکھا میں شامل ہیں توجہہ کا مرکز بناہوا ہے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ امرناتھ یاترا پر این جی ٹی کے احکامات کی خلاف ورزی کی انہوں نے دھمکی دی تھے اور دیوالی کے موقع پر پٹاخوں کے استعمال سے منع کرنے کو ”مخالف ہندو“ احکامات قراردیاتھا۔

اس کے برعکس انہوں نے سکھوں پر مظالم کے معاملات کا بہت ہی کم ذکر کیاہے اور ایک پنجابی نیوز چیانل پر مباحثہ کے دوران انہوں نے مباحثہ میں شامل ساتھے کو ”خالصستان“ بلاتے ہوئے اس کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دی تھی کیونکہ مذکورہ شخص نے حقیقی مسائل کے پس منظر میں بات اٹھائی تھی

https://twitter.com/iJasOberoi/status/966844854192914432?s=20

ایسا ہی ایک امیدوار امرپریت سنگھ بخشی جانگپورا سے ہیں۔ وہ بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے سابق کارکن ہیں‘ جو بی جے پی یوتھ وینگ ہے۔

کئی مرتبہ انہوں نے برسرعام آر ایس ایس کی ستائش کی ہے اور ماضی میں ہندوتوا کے متعلق بے شمار اوقات میں تعریف کی ہے