اگر تشویش لاحق ہے تو سلطانوں کو لاحق ہے

   

کورونا بے قابو … اپنی حفاظت آپ کریں
عوام کی زندگی سے زیادہ بہار الیکشن کی فکر

رشیدالدین
عوام کی جان ومال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ محض زبانی یا اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ دستور میں یہ لازمی فریضہ قرار دیا ہے۔ اگر کوئی حکمراں فرائض منصبی سے غفلت برتے تو گویا اس نے دستور سے انحراف کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کو رعایا پروری کا احساس دلانے کیلئے دستور کی پاسداری کا حلف دلایا جاتا ہے ۔ خدا کے نام پر یا ضمیر کی آواز پر حلف اگرچہ چند منٹ کا ہوتا ہے لیکن حکمراں کو ذمہ داری کا احساس ہو تو 5 برس تک ہر لمحہ حلف کی یاد آتی ہے۔ کہاں ہیں وہ سیاستداں جن کی سیاست کا مقصد عوامی خدمت ہوا کرتا تھا ۔ آج کے سیاستدانوں کو رعایا پروری اور عوامی خدمت چھوکر بھی نہیں گزری ۔ ہر کسی کو اپنے مفادات کی تکمیل کی فکر لاحق ہے۔ مفادات کسی کیلئے ذاتی تو کسی کیلئے سیاسی ایجنڈہ کی صورت میں ہوتے ہیں۔ پارٹی بھلے ہی مختلف ہو لیکن ہر حکمراں خود کو عوام کا سچا ہمدرد اور حقیقی خدمت گزار کے طور پر پیش کرتا ہے۔ خدمت کے دعوؤں کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب عوام کسی مصیبت میں مبتلا ہوں۔ کورونا وائرس کے قہر نے ملک کے حکمرانوں کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حکمرانوں کی اصلیت بے نقاب ہوگئی ۔ کورونا کا قہر دن بہ دن شدت اختیار کر رہا ہے اور عوام اپنی زندگی بچانے کیلئے موت سے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ایسی نازک گھڑی میں عوام کی زندگی بچانے کے اقدامات کے بجائے کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ۔ حکمرانوں نے اپنی نااہلی کا ثبوت دیتے ہوئے واضح کردیا کہ حکومت بے بس ہے اور عوام کو اپنی حفاظت آپ کرنا ہوگا۔ جب عوام کو کورونا سے لڑنا ہے تو حکومت کس مرض کی دوا ہے ۔ عوام کو بچا نہیں سکتے تو پھر گدی پر رہنے کا کوئی حق نہیں ۔ ملک کی بدقسمتی کہئے یا پھر عوام کی بدبختی کہ ایسے حکمراں مسلط ہوگئے جن کے نزدیک انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں۔

وزیراعظم اور وزراء عوام کی موت کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کورونا کے آگے خود کو سرینڈر کردیا ہے۔ ’’کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے‘‘ کے مصداق ایسے نااہل اور بے حس قائدین کو عہدوں سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے جو عوام کی موت پر صرف گنتی کرنے میں مصروف ہیں ۔ انہیں کسی کی موت اور کسی کے گھر اجڑنے کا احساس اس وقت ہوگا جب کورونا مہلوکین کی گنتی میں ان کا کوئی اپنا بھی شامل ہو۔ حکومت کی بے حسی کہیں یا پھر مجرمانہ غفلت کہ جب لاک ڈاؤن ناگزیر تھا، اس وقت لاک ڈاؤن ختم کرتے ہوئے عوام کو مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ۔ ملک پر کورونا کی دستک کے ساتھ ہی دنیا کے دیگر ممالک کی تقلید کرتے ہوئے غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ۔ لاکھوں مائیگرنٹ ورکر س سڑکوں پر نکل آئے اور ہزاروں کیلو میٹر کا فاصلہ پیدل طئے کرتے ہوئے آبائی مقامات کیلئے روانہ ہوگئے ۔ آخرکار مجبور ہوکر شرامک ٹرینوں کا انتظام کیا گیا لیکن ان میں کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی گئیں ۔ حکومت کی نااہلی کے سبب کورونا گاؤں گاؤں پہنچ گیا ۔ وباء کے اس ماحول میں بھی فرقہ وارانہ ایجنڈہ پیش نظر رہا اور کورونا کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا ۔ ملک کے لئے کچھ اچھا ہو تو بھگوا حکومت کا کارنامہ اور کچھ برا ہو تو شبہ کی سوئی مسلمانوں کی طرف موڑ دی جاتی ہے ۔ کورونا سے مسلمانوں کو جوڑنے کی سازش اثر انداز نہیں ہوئی تو بیرونی ممالک سے آنے والوں اور مائیگرنٹ ورکرس کو دوش دیا جانے لگا۔ سوال یہ ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے حکومت نے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی۔ صرف لاک ڈاؤن کا اعلان کافی نہیں تھا۔ لاکھوں مائیگرنٹ ورکرس کو بے یار و مددگار کس نے چھوڑا ۔ یہی لاپرواہی کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بنی ۔ تقریباً ڈھائی ماہ تک لاک ڈاؤن نافذ رہا اور مجموعی طور پر کیسیس کی رفتار بے قابو نہیں تھی۔ ماہرین نے بارہا جون اور جولائی میں کورونا کے عروج پر ہونے کی وارننگ دی ۔ اس کے باوجود جون میں لاک ڈاون میں نرمی دی گئی اور 8 جون کو تمام پابندیاں ختم کرتے ہوئے عام زندگی بحال کردی گئی۔ نرمی کے بعد جیسے کورونا بے قابو ہوگیا۔ جس طرح انسانی خون کا مزہ چکھتے ہی شیر آدم خور بن جاتا ہے ، اسی طرح کورونا کے منہ کو خون لگ چکا تھا ۔ دوسری طرف حکومت نے نرمی کے ذریعہ عوام کو موت کے منہ میں ڈھکیل دیا ۔ حکومت کی اس لاپرواہی پر حکمرانوں کے خلاف قتل عمد کے تحت مقدمہ چلایا جانا چاہئے ۔ ملک میں کورونا کے حالات اس قدر سنگین ہیں کہ بہت جلد اسی رفتار کی صورت میں ہندوستان دنیا میں نمبر ون پوزیشن پر ہوگا۔ صورتحال جبکہ غیر معینہ مدت کے لاک ڈاؤن کی متقاضی ہے، حکومت نے سرے سے پابندیوں کو ختم کردیا ہے ۔ کیا حکومت صورتحال سے اپنا پلہ جھاڑنا چاہتی ہے؟ ماہرین وباء نے بھی صورتحال کی سنگینی کو لاک ڈاون میں نرمی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے دوبارہ لاک ڈاؤن کا مشورہ دیا ہے ۔

ایک طرف عوام کورونا سے خودکو بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں تو دوسری طرف وزیراعظم نریندر مودی کو معیشت کی فکر لاحق ہوچکی ہے ۔ لاک ڈاؤن کے آغاز کے وقت مودی کی ترجیح عوام کی زندگی بچانا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی ترجیحات تبدیل کرنے لگے ہیں۔ عوام کی زندگی کے بجائے معیشت کی بحالی مودی حکومت کی اولین ترجیح بن گئی جو یقیناً کسی سانحہ سے کم نہیں ۔ ملک میں روزانہ مریضوں اور اموات کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اس سے بے خبر نریندر مودی کو خزانہ کی فکر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مودی صورتحال سے ناواقف ہوں لیکن انہوں نے معیشت کا نعرہ دے کر اموات کی سنگینی سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ عوام زندہ رہیں گے تو معیشت باقی رہے گی کیونکہ ملک عوام سے ہے ، معیشت سے نہیں۔ مودی حکومت نے قوم کو موت کے منہ میں ڈھکیلنے کا کام کیا ہے جبکہ قوم پرستی کے نعروں میں مودی اور ان کے ساتھی ہمیشہ آگے رہے ہیں۔ کیا یہی قوم پرستی ہے کہ قوم کو مہلک وائرس کے آگے ڈال دیا جائے۔ یہ محض اتفاق ہے یا پھر کچھ اور کہ ملک کی غیر بی جے پی ریاستوں میں کورونا کا قہر عروج پر ہے ۔ مہاراشٹرا ، دہلی ، ٹاملناڈو، راجستھان ، پنجاب اور تلنگانہ یہ تمام غیر بی جے پی ریاستیں ہیں جہاں کورونا دن بہ دن قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے ۔ کیا بی جے پی ریاستیں کورونا پر قابو پانے میں بہتر کام کر رہی ہے یا پھر غیر بی جے پی حکومتیں کارکردگی میں ناکام ہیں ؟ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ہندوستان میں وائرس کی شروعات غیر بی جے پی ریاست کیرالا سے ہوئی تھی۔ عوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا یہ محض اتفاق ہے یا اس کے پس پردہ کوئی راز ہے۔ حالیہ طوفان کی زد میں غیر بی جے پی ریاستیں آئی تھیں جن میں بنگال ، مہاراشٹرا اور اڈیشہ شامل ہیں۔ کانگریس کے قائد راہول گاندھی فروری سے مسلسل کورونا کی سنگینی کے بارے میں حکومت کو آگاہ کرتے رہے ہیں ۔ انہوں نے لاک ڈاؤن کی خامیوں کو بھی بے نقاب کیا لیکن کیا فائدہ کیونکہ حکومت نے اپنی آنکھیں اور کان بند رکھے ہیں، اسے صرف زبان سے اپوزیشن پر تنقید کرنا آتا ہے۔ تلنگانہ میں صورتحال اس قدر بگڑ گئی کہ گورنر سوندرا راجن کو حکومت کی کارکردگی پر تبصرہ کرنا پڑا۔ ریاست کا دستوری سربراہ جب حقیقی صورتحال سے ناواقف ہو تو پھر عام آدمی کا کیا ہوگا ؟ کورونا ہلاکتوں اور امراض کے بارے میں حکومت نے گورنر سے حقائق کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔ خود گورنر کا اس بارے میں شکایت کرنا کے سی آر حکومت کی بے حسی اور دستوری عہدوں کے عدم احترام کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف کورونا سے عوام بدحال اور پریشان ہیں تو دوسری طرف بی جے پی کو بہار میں الیکشن کی فکر ہے۔ امیت شاہ نے بہار کی انتخابی مہم کا عملاً آغاز کرتے ہوئے دہلی میں بیٹھ کر آن لائین ریالی سے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کشمیر سے دفعہ 370 کی برخواستگی ، شہریت ترمیمی قانون اور رام مندر کی تعمیر کے آغاز کا ذکر کیا ۔ اس طرح کورونا وباء کے قہر کے باوجود بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ امیت شاہ نے اپنے خطاب سے واضح کردیا کہ ان کی پارٹی بہار میں فرقہ وارانہ ایجنڈہ کے ذریعہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اپنی صحت کو بہتر ظاہر کرنے کیلئے امیت شاہ انتخابی مہم میں کود پڑے۔نامور شاعر حبیب جالب نے کیا خوب کہا ہے ؎
اگر تشویش لاحق ہے تو سلطانوں کو لاحق ہے
نہ تیرا گھر ہے خطرہ میں نہ میرا گھر ہے خطرہ میں