اگر ہم پانچ کو اٹھارہے ہیں تو ایک کو ہی تحویل میں رکھتے ہیں‘ کچھ سو ہی ہمارے ساتھ ہیں۔ جموں اوکشمیر ڈی جی پی

,

   

ریاست میں پچھلے ایک ماہ سے زائد عرصہ جاری امتناعات کے متعلق انڈین ایکسپرس کو دئے گئے ایک انٹرویو میں‘ جموں او رکشمیر پولیس چیف دلباغ سنگھ نے کہاکہ اٹھانے والوں کی تعداد سے بہت کم تحویل میں رہنے والوں کی تعداد ہے۔

سری نگر۔پچھلے ایک سال سے جموں او رکشمیر پولیس کے ڈائرکٹر جنرل رہے دلباغ سنگھ نے کہاکہ سری نگر میں نعرے بازی ہمیشہ برہمی کا اظہار نہیں رہتا ہے۔

ریاست میں پچھلے ایک ماہ سے زائد عرصہ جاری امتناعات کے متعلق انڈین ایکسپرس کو دئے گئے ایک انٹرویو میں‘ جموں او رکشمیر پولیس چیف دلباغ سنگھ نے کہاکہ اٹھانے والوں کی تعداد سے بہت کم تحویل میں رہنے والوں کی تعداد ہے۔

انہوں نے کہاکہ پولیس نے کمیونٹی باونڈس کا استعمال کرتے ہوئے اس دور راجدھانی میں 300پتھر بازوں کو گرفتار کرنے کے بعد کچھ کو فوری رہا کردیااور اس عمل میں تین ہزار لوگوں کامیابی کے ساتھ منسلک ہیں۔

ریاست کے خصوصی درجہ کو برخواست کرکے ایک ماہ کا عرصہ گذر گیا ہے اور بڑے پیمانے پر تحدیدات بھی عائد کئے گئے ہیں۔ ان حالات کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟۔

میں کہوں گا کہ بڑی اطمینان ہے یہ ہے حالات بڑے پیمانے پرپرامن ہیں‘سوائے کچھ مقامات پر معمولات واقعات کے علاوہ۔ سب سے زیادہ کشیدگی کاشکار رہنے والے علاقے زیادہ پرامن ہیں۔

سارے جنوبی کشمیر میں نظم ونسق کے حالات پوری طرح قابو میں ہیں۔

زیادہ تر واقعات کی جانکاری سری نگر سے مل رہی ہے۔ اور اس میں بڑھاوے دینے کی رپورٹنگ کارفرما ہے بالخصوص بیرونی میڈیا۔

توقعات سے ہٹ کر روز مرہ پیش ائے انے والے واقعات میں کمی ائی ہے۔

لوگوں کی حمل ونقل جاری ہے۔ دوکانیں بند ہیں اور میری دلچسپی نہیں ہے کہ کسی کودوکان کھولنے کے لئے مجبورکروں‘ میں کیوں کروں؟۔یہ ان کاروبار ہے‘ ان کاکام ہے۔

رات کے واقعات میں تھوڑی چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی موقع کا فائدہ نہ اٹھالے۔ دوسری بات92پولیس اسٹیشنوں کے حدود سے تحدیدات ہٹالئے گئے ہیں۔

محض تیرہ پولیس اسٹیشن حدود میں ہی تحدیدات برقرار ہیں۔ یہاں پر اس کے علاوہ کہیں بھی جموں اور لداخ میں تحدیدات نہیں ہے۔ لیح اور کارگل میں انٹرنٹ بھی کام کررہا ہے

سری نگر میں واقعات کی تعداد میں اضافہ کیانیا رحجان ہے؟پاریمپورہ کے دوکاندار کی موت کی روشنی میں کیا حالات چوکسی اختیار کرنے کے ہوجائیں گے؟

اس طرح کے واقعات میں نہ توکوئی ایف ائی آر ہوئی ہے اور نہ تشدد۔کچھ حد تک برہمی کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے‘ جس کا مطلب یہ نہیں ہے وہ قابل رحم جرم میں شمار کیاجائے۔

میں اس کو درج کرکے کیوں اس لڑکے کی زندگی تباہ کروں؟ جب وہ سطح عبور کریں گے‘ وہاں پر تشددہوگا‘ پتھر بازی ہوگی اور کوئی زخمی ہوگا‘

یہا ں سے ایسی خبر ہے۔ نعرے بازی ماضی میں ہوتی رہی۔ یہاں پر کوئی برہمی ہمیشہ نہیں رہتی۔ اگر نچلے علاقوں میں آپ جائیں‘ روزمرہ بھی ادمی جائے گاتو پتھر پڑ جائے گا۔

اگلا مرحلہ کیا؟
دہشت گرد لوگوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ کاروبار چالو نہ کریں۔ان لوگوں نے کچھ مقامات پر پوسٹر س لگائے لوگ اس کی شدت کے ساتھ مالفت کررہے ہیں۔

بعض مقامات پر وہ لوگ کوشش کررہے ہیں کے لوگوں سے کہیں وہ کسی ٹرانسپورٹ کا استعمال نہ کریں مگر گاڑیاں چل رہی ہیں۔

پھر انہو ں نے پٹرول پمپس کے مالکو ں کوانتباہ دیاکیونکہ ان کی وجہہ سے عام ٹریفک بحال ہورہی ہے۔لہذا دہشت گردوں کی توجہہ دنیا کو یہ دیکھانے ہی ہے کہ حالات جو ں کے توں برقرار ہیں۔اب تک لوگوں نے اس کی مزاحمت کی ہے۔

جنوبی کشمیر سے اذیتیں پہنچانے کے الزامات کی خبریں ہیں۔ اس کے متعلق آپ واقف ہیں؟
ہر روز حالات پر ہم نظر رکھے ہوئے ہیں۔

یہاں پر ایک واقعہ پیش آیاجس میں ایک لڑکے کو اتفاقی طو رپر فوج کے ایک جتھے کے سبب سر پر چوٹ لگی۔ ا س کاہم سختی سے نوٹ لیاہے۔

وہ لوگ ایک گھر کی تلاشی میں گئی تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ مگر اس واقعہ کی نوعیت بہت الگ ہے۔

تاہم لوگوں کو اٹھانااو رانہیں اذیت پہنچانے یہاں تک اذایت کے الزامات پرمشتمل ویڈیوبھی دیکھیں ہیں۔میں نہیں سمجھتا کہ یہ لڑکے اب کہاں کے ہیں۔ ہمارے پاس تشدد کا طریقہ ہے نہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے

اب ایسے موقع پرکتنے دہشت گرد سرگرم ہیں؟
ان کی تعداد زیادہ ہے اور ان کے حمل ونقل محدود ہے۔ ساوتھ کشمیرمیں 150اور ساری وادی میں 250دہشت گرد سرگرم ہیں