اہلبیت اطہار اور اُن کے پاکیزہ صفات و کمالات

   

حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام بندں کے دلوں پر پہلی دفعہ نگاہ ڈالی تو ان میں سے ہمارے آقا محمد صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو پسند فرمایا اور انھیں اپنا رسول بناکر بھیجا اور ان کو اپنا علم خاص عطا فرمایا پھر دوبارہ لوگوں کے دلوں پر نگاہ ڈالی اور آپ کے لئے صحابہؓکو چنا اور ان کو اپنے دین کامددگار اور اپنے نبی کریم ﷺکی ذمہ داری وراثت کا اُٹھانے والا بنایا لہذا جس کو مومن ( یعنی صحابہ کرام ) اچھا سمجھیں گے وہ چیز اﷲ تعالیٰ کے ہاں بھی اچھی ہوگی اور جس چیز کو برا سمجھیں گے وہ چیز اﷲ تعالیٰ کے پاس بھی بری ہوگی ۔
( ابونعیم ، حلیۃ الاولیاء جلداول ص : ۳۷۵)
انبیاء کرام کے بعد روئے زمین پر سب سے مقدس جماعت صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیھم اجمعین کی ہے ۔ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ ، بی بی سیدتنا فاطمۃ الزھراء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ، سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی ذوات قدسی صفات ، صحابیت کی فضیلت کے علاوہ نبی اکرم ﷺسے نسبی تعلق اور دیگر خصوصیات وامتیازات کی بناء منفرد و امتیازی مقامات کے حامل ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت ضرار بن ضمرہ کنانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں گئے تو حضرت امیر معاویہ ؓنے ان سے حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کے اوصاف و کمالات بیان کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ حضرت ضرار بن ضمرہ عذر پیش کرتے رہے لیکن حضرت امیر معاویہؓ کا اصرار بڑھتا گیا تو حضرت ضرار بن ضمرہ نے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی نورانی شخصیت کا مثالی نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا : حضرت علی کرم اللہ وجہہ بلند مقاصد والے ، بڑے طاقتور تھے ، فیصلہ کن بات کہتے اور عدل و انصاف کا فیصلہ فرماتے ۔ آپ کے ہر پہلو سے علم کے چشمے پھونٹتے اور ہر طرف سے حکمت و دانائی ظاہر ہوتی ، دنیا اور دنیا کی رونق سے آپ کو وحشت تھی ، رات اور رات کے اندھیرے سے ان کا دل بڑا مانوس تھا ، بخدا ! وہ بہت زیادہ رونے والے تھے ، اپنی ہتھیلیوں کو پھیرتے ہوئے اور اپنے نفس کو مخاطب کیا کرتے، سادہ مختصر لباس اور موٹا جھوٹا کھانا پسند تھا ، اﷲ کی قسم! وہ ہمارے ساتھ ایک عام آدمی کی طرح رہتے ۔ جب ہم ان کے پاس جاتے تو ہمیں اپنے قریب بٹھالیتے اور جب ہم ان سے کچھ دریافت کرتے تو ضرور جواب دیتے ، اگرچہ وہ ہم سے بہت گھل مل کر رہتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کی ہیبت کی وجہ سے ہم ان سے بات نہیں کرسکتے تھے ۔ جب آپ تبسم فرماتے تو آپ کے دانت مبارک پروئے ہوئے موتیوں کی طرح نظر آتے ،دینداروں کی قدر کرتے ، مسکینوں سے محبت کرتے ، کوئی طاقتور اپنے غلط دعوے میں کامیابی کی آپ سے توقع نہیں رکھ سکتا اور کوئی کمزور آپ کے انصاف سے ناامید نہ ہوتا اور میں اﷲ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ میں نے ان کو ایک دفعہ ایسے وقت میں کھڑے ہوکر دیکھا جب رات کی تاریکی چھاچکی تھی اور ستارے ڈوب چکے تھے اور آپ اپنی محراب میں اپنی داڑھی پکڑے ہوئے جھکے ہوئے تھے اور اس آدمی کی طرح تلملارہے تھے جسے کسی بچھو نے کاٹ لیا ہو اور غمگین آدمی کی طرح رو رہے تھے اور ان کی صدا گویا اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے کہ بار بار ’’ یاربنا یا ربنا ‘‘ فرماتے اور اﷲ کے سامنے گڑ گڑاتے ، پھر دنیا کو مخاطب ہوکر فرماتے کہ اے دنیا ! تو مجھے دھوکہ دینا چاہتی ہو ، میری طرف جھانک رہی ہو ، مجھ سے دور ہوجا ، مجھ سے دور ہوجا ، کسی اور کو جاکر دھوکہ دے ، میں نے تجھے تین طلاق دیدی ہے کیونکہ تیری عمر بہت تھوڑی ہے اور تیری مجلس بہت گھٹیا ہے ، تیری وجہ سے آدمی آسانی سے خطرہ میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ ہائے ہائے کیا کروں زاد سفر تھوڑا ہے اور سفر لمبا ہے اور راستہ وحشتناک ہے ۔ یہ سنکر حضرت معاویہ ؓ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ پڑے وہ روک نہ سکے اور اپنی آستین سے ان کو پوچھنے لگے اور لوگ ہچکیاں لیکر اتنا رونے لگے کہ گلے رُندھ ہوگئے ۔ ( ابن عبدالبر ، الاستعیاب جلد سوم ص :۴۴)
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت سیدنا امیر معاویہ ؓنے حضرت سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کے قدسی صفات سننے کی خواہش ظاہر کی تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ ابوالحسن حضرت علیؓ پر رحمت نازل فرمائے اﷲ تعالیٰ کی قسم وہ ہدایت کا جھنڈا ، تقویٰ کا غار اور عقل کا گھر اور رونق کا ٹیلہ تھے ۔ رات کی اندھیریوں میں چلنے والوں کے لئے روشنی تھے اور عظیم سیدھے راستے کی دعوت دینے والے اور پہلے آسمانی صحیفوں اور کتابوں کو جاننے والے ، قرآن کی تفسیر بیان کرنے والے وعظ و نصیحت کرنے والے اور ہمیشہ ہدایت کے اسباب میں لگے رہنے والے اور ظلم و اذیت رسانی کے چھوڑنے والے اور ہلاکت کے راستوں سے ہٹ کر چلنے والے تھے ، تمام مومنوں اور متقیوں میں سے بہترین اور تمام کرتہ چادر پہننے والے انسانوں کے سردار اور حج و سعی کرنے والوں میں سے افضل اور عدل و مساوات کرنے والوں میں سب سے بڑے جوانمرد تھے اور انبیاء اور نبی کریم ﷺکے علاوہ تمام دنیا کے انسانوں سے زیادہ اچھے خطیب تھے ۔ جنھوں نے دو قبلوں بیت المقدس اور بیت اﷲ کی طرف نماز پڑھی ۔ کیا کوئی مسلمان ان کی برابری کرسکتا ہے ؟ جبکہ وہ تمام خواتین میں بہترین خاتون حضرت فاطمہ ؓکے شوہر اور حضور پاک ﷺ کے دو نواسوں کے والد تھے ، میری آنکھوں نے ان جیسا کبھی دیکھا نہ آئندہ قیامت تک کبھی دیکھ سکیں گے جو ان پر لعنت کرے اس پر اﷲ تعالیٰ اور اس کے بندوں کی قیامت تک لعنت ہو ۔
( ھیثمی، جلد ۹ ص :۱۶۰)
جب حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ شہید ہوگئے تو حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا ، پہلے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا : اما بعد ! آج رات تم نے ایک ہستی کو شہید کیا ہے جبکہ اسی رات میں قرآن پاک نازل ہوا، اسی میں حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو اُٹھایا گیا اور اسی رات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خادم حضرت یوشع بن نون رحمۃ اللہ علیہ کو شہید کیا گیا اور اسی دن بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی (المنتخب جلد پنجم ص : ۱۶۱) اور طبرانی کی روایت میں اس کے بعد یہ ہے کہ پھر حضرت حسن ؓ نے فرمایا : جو مجھے جانتا ہے وہ تو مجھے جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اسے اپنا تعارف کرادیتا ہوں کہ میں حضرت محمد ﷺ کا بیٹا حسن ہوں پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : میں نے اپنے آباء ابرھیم ، اسحق اور یعقوب علیھم السلام کے مذہب کی پیروی کی ۔ (اس آیت میں حضرت یوسف نے حضرت ابراھیم اور حضرت اسحق کو باپ کی حیثیت سے تعبیر کیا جبکہ وہ دادا اور پڑداد ہیں) پھر امام حسنؓ نے فرمایا : میں بشارت دینے والے نبی کا بیٹا ہوں ، میں ڈرانے والے نبی کا بیٹا ہوں ، میں اﷲ کے حکم سے اﷲ کی دعوت دینے والے کا بیٹا ہوں ، میں روشن چراغ کا بیٹا ہوں ، میں اُس ذات کا بیٹا ہوں جن کو ’’رحمت للعلمین‘‘ بناکر بھیجا گیا ہے ، میں اُس گھرانے کا فرد ہوں جس سے اﷲ تعالیٰ نے گندگی کو دور کردیا اور جنھیں خوب اچھی طرح پاک کردیا میں اس گھرانے کا فرد ہوں جن کی محبت اور دوستی کو اﷲ نے فرض قرار دیا ۔ ارشاد الٰہی ہے اے حبیب آپ فرمادیجئے میں تم سے کچھ نہیں چاہتا بجز رشتہ داری کی محبت کے ۔ (طبرانی بروایت حضرت ابوالطفیل)
حضرت عقبہ بن ابی العیزار کی روایت کے مطابق حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیضہ مقام میں اپنے اور حر بن یزید کے ساتھیوں سے خطاب کیا ۔ ابتداء میں اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا :’’لوگو ! حضور پاک ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : جو آدمی ایسے ظالم بادشاہ کو دیکھے جو اﷲ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھے اور اﷲ سے کئے ہوئے معاہدے کو توڑدے اور حضور پاک ﷺ کی سنت مبارکہ کا مخالف ہو اور اﷲ تعالیٰ کے بندوں سے متعلق گناہ اور زیادتی کے کام کرتا ہو اور پھر وہ آدمی اس بادشاہ کو اپنے قول اور فعل سے نہ بدلے تو اﷲ تعالیٰ پر حق ہوگا کہ وہ اس جرم کے لائق جگہ یعنی جہنم میں داخل کردے ۔ سنو! ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت کو لازم کرلیا ہے اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے اور مال غنیمت پر خود قبضہ کرلیا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دیدیا ہے ۔ ان لوگوں کو بدلنے کا سب سے زیادہ حق مجھ پر ہے تمہارے خط میرے پاس آئے تھے ، تمہارے قاصد بھی مسلسل آتے رہے کہ تم مجھ سے بیعت ہونا چاہتے ہو اور مجھے بے یار و مددگار نہیں چھوڑوگے ۔ اب اگر تم اپنی بیعت پر پورے اُترتے ہو تو تمہیں پوری ہدایت ملے گی اور میں بھی علی کا بیٹا حسین ہوں ، حضور ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ کا بیٹا ہوں ۔ میری جان تمہاری جان کے ساتھ ہے اور میرے گھر والے تمہارے گھر والوں کے ساتھ ہیں ۔ تم لوگوں کے لئے میں بہترین نمونہ ہوں اور اگر تم نے ایسا نہ کیا اور عہد توڑدیا اور میری بیعت کو اپنی گردے سے اُتار پھینکا تو میری جان کی قسم ! ایسا کرنا تم لوگوں کے لئے کچھ اجنبی نہیں ہے کیونکہ تم لوگ اس طرح میرے والد، میرے بھائی اور میرے چچازاد بھائی ( مسلم بن عقیل) کے ساتھ بھی کرچکے ہو جو تم لوگوں سے دھوکہ کھائے وہ اصل میں دھوکہ میں پڑا ہے ، تم اپنے حصے سے چوک گئے اور تم نے اپنا حصہ ضائع کردیا اور جو عہد توڑیگا تو اس کا نقصان خود اسی کو ہوگا اور عنقریب اﷲ تعالیٰ تم لوگوں سے مستغنی کردیگا ، تم لوگوں کی مجھے ضرورت نہ رہے گی ۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ‘‘۔