اہل بیت اور قرآن امت کو انتشار سے بچانے کے ضامن

   

اہل بیت اطہارؓسے محبت اور صحابہ کرام ؓکا ادب اہل سنت والجماعت کا شیوہ، شاہی مسجد باغ عامہ میں مولانا ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی کا خطاب
حیدرآباد، 8 اگست (پریس نوٹ) ماہ محروم الحرام میں انسانی تاریخ کا انتہائی کربناک اور مظلومانہ واقعہ کربلا پیش آیا۔ 10 محرم کو اللہ رب العزت نے تمام انبیاء پر انعام فرمایا ہے۔ اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نجات ملی۔ سنہ 60 ہجری میں حضرت امام حسین ؓ کی شہادت ہوئی۔ اس واقعہ نے امت مسلمہ کو اس حد تک متاثر کیا کہ آج ماہ محرم اہل بیت اطہار کے تذکرہ کیلئے معنون ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان بلا تفرق مسلک اہل بیت اطہار کے تذکرے کرتے ہیں۔ اہل بیت اطہار سے مراد حضور صلی اللہ علیہ آلہ و سلم کا خاندان ہے۔ قرآن مجید میں مختلف جگہ اہل بیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورہ الحزاب اور سورہ شوریٰ کی تیسوی آیت میں اس کا ذکر ہے۔ اہل بیت سے تعلق اور محبت کو نیکی قرار دیا گیا ہے اور اس سے مزید نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تمام اہل بیت اطہار سے محبت کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ، حضرت سیدنا علی ؓ کو دیکھ کر کہتے کہ حضرت علی ؓ کو دیکھنا عبادت ہے۔خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت کی محبت کو ایمان اور ان سے بغض و نفرت کو کفر فرمایا ہے۔ ان خیالات کا اظہار شاہی مسجد باغ عامہ میں مولانا ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی نے کیا ہے۔ مولانا احسن الحمومی نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو اپنی اولاد کو ایمان والا دیکھنا چاہتے ہیں تو تربیت تین بنیادوں حب نبیؐ، اہل بیت اطہار کی محبت اور تلاوت قرآن سے کرو۔ عام طور پر اہل بیت کے تذکرہ کو ایک خاص طبقہ تک محدود کردیا گیا جو غلط ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ لوگو اللہ سے محبت کرو، اللہ سے محبت کی خاطر مجھ سے محبت کرو۔ مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہوں تو میرے اہل بیت سے محبت کرو۔ حضورؐ نے فرمایا کہ میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، کتاب اللہ اور اہل بیت۔ یہ دو ایسی چیزیں ہیں، جو امت کو بکھیرنے سے بچا لیں گی۔ یہ امت کی شیرازی بندی کریگی ۔ ایک صحابی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ تمام صحابہ حضورؐ کی امامت میں نماز پڑھ رہے تھے حضورؐ نے طویل سجدہ کیا۔ نماز ختم ہونے کے بعد صحابہ ؓنے پوچھا تو حضورؐ نے فرمایا کہ اس دوران میرا نواسہ پیٹھ پر سوار تھا، اسی لیے تاخیر ہوگئی۔ حضورؐ حضرت حسینؓ کو اپنی پیٹھ پر سوار کررہے تھے، تب ایک صحابی نے کہا کہ کیا بہترین سواری ہے، تو حضورؐ نے فرمایا کہ سوار بھی بہترین ہے۔ حضرت سیدنا عمرؓ کے دور میں ایک مرتبہ حضرت سیدنا حسنؓ نے کہاکہ عمرؓ ممبر رسول پر سے اترجاؤ تو حضرت عمرؓ فوراً اترگئے۔ حضرت سیدنا عمرؓکی ایک خاص میٹنگ ہورہی تھی۔ وہاں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بھی آنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ دیکھ کر حضرت امام حسنؓ واپس ہوگئے ۔ کسی نے اطلاع دی تو حضرت عمرؓ میٹنگ چھوڑ کر حضرت امام حسنؓ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور اپنا امامہ اتار کر کہا کہ عمرؓ کو عزت آپ کے خاندان کی وجہ سے ملی ہے۔ مولانا احسن نے کہا کہ بعض لوگوں کی بدبختی کی وجوہات میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے رشتہ توڑنا اور اہل بیت اطہار کا احترام نہ کرنا ہے۔ اہل بیت کی محبت ایمان کو تازگی عطا کرنے والا عقیدہ ہے۔ بادشاہ وقت اورنگ زیب نے انتقال سے قبل وصیت کی کہ مجھے کفن حضرت امام حسین ؓ کے روضہ کے کپڑے سے دیا جائے۔ مولانا نے کہا کہ افسوس ہے کہ آج بعض لوگ یزید ملعون کو اچھے نام سے یاد کررہے ہیں، اس کیلئے دعا کررہے ہیں۔ یہ قوم کی بے غیرتی و انتہا درجہ کی گراوٹ ہے۔ حضرت شیخ احمد سرہندیؒ فرمایا کرتے کہ لوگو اہل بیت سے محبت کرو، یہ تمہارے خاتمہ بالخیر کی ضمانت ہے ۔ اہل بیت و تمام صحابہ حضورؐ کی آنکھوں کے تارے ہیں۔ اہل سنت کسی کی گستاخی اور بے ادبی کرنے کا نام نہیں ہے۔ اہل سنت کے نزدیک خاندان و صحابیت دونوں کی نسبتیں محترم ہیں۔