اہم درگاہوں کے کنٹراکٹرس کی میعاد میں توسیع کے لیے وقف بورڈ پر دبائو

   

لاک ڈائون سے نقصانات کا بہانہ، عہدیدار غیر مجاز توسیع کے حق میں نہیں
حیدرآباد۔ 8 جون (سیاست نیوز) ایک طرف وقف بورڈ کی آمدنی میں اضافے کے لیے جائیدادوں کی ترقی اور درگاہوں کے انتظامات کے ہراج کی رقم میں اضافے کے اقدامات کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف کورونا لاک ڈائون کا بہانہ بناکر بورڈ کے بعض ارکان اہم درگاہوں کے کنٹراکٹرس کی لیز میں اضافے کے لیے بورڈ پر دبائو بنارہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وقف بورڈ کے حالیہ اجلاس میں دو ارکان نے اس بات پر اصرار کیا کہ تلنگانہ کی اہم درگاہوں جیسے جہانگیر پیراںؒ، بڑا پہاڑؒ، انارم شریفؒ ورنگل اور جان پاک شہیدؒ نلگنڈہ کے کنٹراکٹرس کی میعاد میں دو ماہ کی توسیع دی جائے کیوں کہ لاک ڈائون کے سبب درگاہیں بند تھیں اور کنٹراکٹرس کو کوئی آمدنی نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا جب کبھی کنٹراکٹرس کی میعاد ختم ہوگی انہیں دو ماہ کی توسیع دی جانی چاہئے تاکہ نقصان کی پابجائی ہو۔ ان ارکان نے کنٹراکٹرس کے حق میں بورڈ کے اجلاس میں نمائندگی کی جس پر بورڈ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی رعایت نہیں دی جاسکتی کیوں کہ حکومت نے ریاست میں کرایہ داروں کو تین ماہ تک کرایہ ادا نہ کرنے کی رعایت دی ہے نہ کہ معاف کیا ہے۔ تین ماہ بعد کرایہ داروں کو اقساط میں بقایا جات ادا کرنے ہوں گے۔ وقف بورڈ میں اس طرح کی کوئی گنجائش نہیں کہ کنٹراکٹرس کو بغیر کسی معاوضے کے معاہدے میں توسیع کردی جائے۔ لاک ڈائون کے نتیجہ میں نقصان تو وقف بورڈ کا بھی ہوا کیوں کہ بورڈ کے ہزاروں کرایہ دار تین ماہ تک کرایہ ادا نہیں کریں گے۔ پہلے ہی کرایوں کی وصولی کی رفتار انتہائی سست ہے ایسے میں لاک ڈائون کا بہانہ بناکر کرایہ داروں نے ادائیگی سے انکار کردیا ہے۔ بورڈ کے دیگر ارکان کی رائے بھی کنٹراکٹرس کو توسیع دینے کے حق میں نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف ایگزیکٹیو آفیسر وقف بورڈ سے اس سلسلہ میں تحریری نمائندگی کی بھی کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کنٹراکٹرس کی جانب سے ابھی تک اس سلسلہ میں وقف بورڈ سے کوئی نمائندگی نہیں کی گئی اور ان کی طرف سے بعض ارکان کی ہمدردی باعث حیرت اور وقف بورڈ کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ ایسے وقت جبکہ وقف بورڈ کی آمدنی میں اضافہ کرتے ہوئے آمدنی کو مسلمانوں کی بھلائی پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے بورڈ کو خسارے سے دوچار کرنا اوقافی جائیدادوں کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ بڑی درگاہوں کے کنٹراکٹرس جس رقم میں بھی کنٹراکٹ حاصل کرتے ہیں انہیں سال بھر ادا کی گئی رقم سے دوگنی آمدنی ہوتی ہے۔ صرف دو ماہ کے لاک ڈائون سے ایسا کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا جس کے لیے کنٹراکٹرس کو توسیع پر غور کیا جاسکے۔ کنٹراکٹرس خود اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کی جانب سے کوئی پہل نہیں کی گئی۔ اطلاعات کے مطابق بورڈ کے اجلاس میں حیدرآباد کے دینی مدرسہ برائے طالبات کو امداد کی منظوری کے لیے بھی ایک رکن کی جانب سے مطالبہ کیا گیا اور صدرنشین وقف بورڈ نے 15 ہزار روپئے منظور کئے جس پر مزید 10 ہزار کی منظور کی مانگ کی گئی۔ وقف بورڈ کی جانب سے دینی مدارس کی امداد کا کوئی نظم نہیں ہے۔ اگر کسی ایک ادارے کو امداد دی گئی تو پھر شہر اور ریاست کے دیگر دینی مدارس بھی امداد کے لیے رجوع ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں وقف بورڈ کے پاس بجٹ کی قلت پیدا ہوجائے گی۔