ایودھیا مقدمہ ‘ پیروی سے روکنے کی کوشش

   

ایودھیا میں بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی مقدمہ کی سماعت سپریم کورٹ میں یومیہ اساس پر چل رہی ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمہ میں مصالحت کیلئے ایک سہ رکنی کمیٹی بنائی تھی اور اس کیلئے ایک وقت بھی دیا گیا تھا تاہم کمیٹی کی کوششوں کے باوجود اس مسئلہ پر مصالحت ممکن نہیں ہو پائی ہے ۔ عدالت نے مصالحتی کوششوں کی ناکامی کے بعد مقدمہ کی یومیہ اساس پر سماعت کا آغاز کردیا ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرست عناصر ‘ جنہیں عدلیہ پر بھی یقین نہیںہے ‘ وہ اس مسئلہ پر مسلمانوں کو مقدمہ کی پیروی کرنے سے بھی روکنا چاہتے ہیں۔ وہ بزور طاقت اس مسئلہ پر فیصلہ چاہتے ہیں جو ممکن نہیں ہے ۔ عدالت میں جو سماعت ہو رہی ہے اس میں تمام فریقین اپنے اپنے دلائل اور موقف کو پیش کر رہے ہیں ۔ مسلمانوں کی جانب سے بھی اس مسئلہ پر موثر پیروی کی جا رہی ہے ۔ عدالتی سماعت میں اپنے ثبوت اور دلائل پیش کرتے ہوئے اپنے ادعا کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جو دوسرے فریقین ہیں وہ بھی اپنے دلائل اور ثبوت پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم کچھ مٹھی بھر شرپسند عناصر ایسے ہیں جو شائد عدلیہ پر یقین نہیں رکھتے اور اسی لئے وہ مسلمانوں کو اس مقدمہ کی پیروی کرنے سے روکنے کی مختلف کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کوششوں میں مقدمہ کے اصل فریق اقبال انصاری پر حملہ کردیا جاتا ہے ۔ انہیں مقدمہ واپس لینے کیلئے دھمکیاں دی جاتی ہیں اور گھر میں گھس کر زد و کوب کیا جاتا ہے ۔ انہیں ان کے سکیوریٹی اہلکاروں نے حملہ آوروں سے بچالیا ورنہ انہیں جان کا خطرہ بھی لاحق ہوسکتا تھا ۔ فیض آباد میں پولیس نے ان حملہ آوروں کو گرفتار بھی کرلیا ہے ۔ اسی طرح کچھ گوشوں کی جانب سے مسلم فریقین کی عدالت میں پیروی کرنے والے وکیل کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ راجیو دھون اس مقدمہ میں مسلم فریق کے وکیل ہیں اور انہوں نے شکایت کی تھی کہ کچھ افراد انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ مسلم فریق کی عدالت میں پیروی سے باز آجائیں۔ راجیو دھون نے عدالت کو اس سے واقف کروایا اور ان دونوں کے خلاف عدالت نے نوٹس بھی جاری کردی ہے ۔

ایودھیا کا مسئلہ ہندوستان میںایک طویل عرصہ سے زیر دوران ہے ۔ اس مسئلہ کی یکسوئی عدالتی فیصلے کے ذریعہ ہی ممکن ہوسکتی ہے ۔ مصالحت کیلئے کئی مرتبہ کئی گوشوں سے مختلف انداز میں کوششیں ہوئی ہیں لیکن یہ ناکام ہوگئی ہیں۔ سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ سہ رکنی کمیٹی بھی اس کام میں کامیاب نہیں ہوپائی ہے ۔ اس صورت میںعدالت نے مسئلہ کی یکسوئی کیلئے یومیہ سماعت شروع کردی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ کچھ عناصر اندیشوں کا شکار ہوکر مسلم فریقین کو مقدمہ کی پیروی کرنے سے روکنا چاہتا ہیں۔ کہیں مقدمہ کے اصل فریق پر حملہ کرتے ہوئے انہیں مقدمہ واپس لینے کیلئے دھمکی دی جا رہی ہے اور انہیں گولی مارنے کے ارادے ظاہر کئے جا رہے ہیں تو کہیں وکیل کو پیروی سے روکنے کیلئے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اس طرح کی کوششیں عدالتی عمل میں یقین نہ ہونے کی ذہنیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان کوششوں کے ذریعہ یہ مٹھی بھر شرپسند عناصر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بزور طاقت اپنے ادعا کو تسلیم کروانہیں گے ۔ اگر کوئی ایسا کرنے سے روکنے عدالتی عمل کا سہارا لیتا ہے تو اسے دھمکایا جائیگا ۔ یہ ذہنیت انتہائی مایوسانہ اور ناکام ذہنیت کہی جاسکتی ہے ۔ اس طرح کی کوششیں در اصل انصاف رسانی کے نظام میں مداخلت کی بھی کوشش کہی جاسکتی ہے جبکہ انصاف رسانی کے نظام میں مداخلت کا کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے اور ملک میں عدالتیں ہی ہیں جو لوگوں میں تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور مظلوموں کو انصاف پہونچانے میں مصروف ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں جب یہ مسئلہ زیر دوران ہے اور یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اس مسئلہ کی عدالتی فیصلے کے ذریعہ یکسوئی ہوجائے گی تو تمام فریقین کو عدالت میں اپنے دلائل اور ادعا جات پیش کرنے چاہئیں۔ انہیں اپنے ثبوت و شواہد پیش کرنے چاہئیں۔ کسی بھی فریق کو دوسرے فریق کو پیروی سے روکنے کا کوئی حق یا اختیار حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اگر اس طرح فریقین کو دھمکانے اور مقدمہ کی پیروی کرنے سے روکنے کی کوششیں ہوتی ہیں تو یہ انصاف کے قتل کے مترادف ہوگا اور ایسا کرنے والوں کو عدالتی کارروائیوں کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے ۔ سپریم کورٹ نے راجیو دھون کو دھمکانے والے دو افراد کو نوٹس بھی جاری کردی ہے اور اقبال انصاری پر حملہ کرنے والوں کو پولیس نے گرفتار بھی کرلیا ہے ۔ ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے ۔