ایک قوم ‘ایک الیکشن کا ایجنڈہ

   

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ۔ یہاں جمہوریت کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ اسی جمہوریت کے ساتھ ہندوستان نے سفر کرتے ہوئے سات دہوں سے زیادہ کا وقت گذارا ہے اور اب ایک مستحکم اور طاقتور ملک کے طور پر ابھر رہا ہے ۔ ہندوستان کی جمہوریت کا سفر آسان نہیں رہا ۔ بہت مشکل دور بھی آئے ہیں لیکن جمہوریت پر یقین اور اس کے استحکام نے ملک کو ہر مشکل گھڑی اور مشکل وقت سے آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ یہ ہندوستانی جمہوریت کا اعجاز ہی ہے کہ آج کوئی کمزور سے کمزور اور پسماندہ سے پسماندہ شخص بھی ملک میں اعلی ترین عہدہ کیلئے انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کرسکتا ہے اور دلیرانہ طور پر مقابلہ کرنے اور حالات کا سامنا کرنے کا جذبہ رکھنے والوں کو جمہوریت نے کامیابی بھی عطا کی ہے ۔ ہندوستان میں ایک وسیع و عریض ملک بھی ہے ۔ یہاں تقریبا ہر چند ماہ میں ملک کی کسی نہ کسی ریاست میںاسمبلی انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ کہیں کارپوریشن کے انتخابات بھی ہوتے ہیں تو کہیں ضلع پریشد اور سرپنچ کے انتخاب کیلئے بھی رائے دہی ہوتی رہتی ہے ۔ کبھی پارلیمانی انتخابات تو کبھی ضمنی انتخابات کسی نہ کسی شہر یا ریاست میں ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے میں مرکزی حکومت کی جانب سے ایک قوم ایک الیکشن کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے اور یہ اندیشے سر ابھارنے لگے ہیں کہ حکومت اس سلسلہ میں قانون سازی کیلئے بھی اقدامات کا آغاز کرسکتی ہے ۔ ملک کی ہر ریاست میں مسائل علیحدہ ہیں۔ ہر ریاست میں کلچر مختلف دیکھنے کو ملتا ہے ۔ عوام کے رہن سہن میں فرق ہے ۔ رسم و رواج میں یکسانیت نہیں ہے ۔ ملک کی ہر ریاست میں الگ زبان بولی جاتی ہے ۔ کچھ زبانیں تو شہروں میں بھی تبدیل ہوجاتی ہیں۔ ہر ریاست کی صورتحال ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے ۔ کہیں بارش تو کہیں گرمی ۔ کہیں سیلاب تو کہیں خشک سالی جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کو کثرت میں وحدت والا ملک قرار دیا جاتا ہے اور یہی ہندوستان اور اس کی جمہوریت کا امتیاز ہے ۔ کثرت میں وحدت ہی ہندوستان کو دنیا بھر میں منفرد مقام دلاتی ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ سارا ہندوستان ایک قوم ہے ۔ ایک ملک ہے ۔ اس پر کبھی دو رائے نہیں ہوسکتی ۔ تاہم داخلی طور پر ہماری جو کثیر جہتی رنگا رنگ تہذیب ہے اس کو ایک رنگ دینے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی نہیںکی جانی چاہئے ۔ ہندوستان رنگ برنگی تہذیبوں سے مل کر ایک گلدستہ بنا ہے ۔ اس کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ درا صل ایک ملک ایک الیکشن کا جو نعرہ ہے وہ سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے دیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی کے عزائم ایسا لگتا ہے کہ اقتدار سے دور ہونے کے نہیں ہیں۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے اقتدار پر برقرار رہنا چاہئے لیکن انتخابی ضابطہ یا قوانین کو تبدیل کرتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس ملک میں ہر علاقہ کی صورتحال مختلف ہوتی ہے ۔ سبھی ریاستوں کے ایک دوسرے سے تضادات بھی ہوتے ہیں اور یکسانیت بھی ہوتی ہے ۔ سب پر نگرانی کیلئے وفاقی طرز پرمرکزی حکومت پہلے ہی سے موجود ہوتی ہے ۔ مرکز کی نگرانی میں ہی ریاستی حکومتیں کام کرتی ہیں ۔ تاہم صرف سیاسی مفادات کیلئے سارے انتخابی نظام کو تبدیل کرنے کی کوششیں کرنا یا منصوبے بنانا درست نہںے ہے ۔ ملک کی جمہوریت کے ساتھ کسی طرح کا کھلواڑ نہیں ہونا چاہئے ۔ کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ اقتدار کے لالچ اور ہوس میں ملک کے انتخابی نظام پر ہی اثرا نداز ہونے یا اس میں بنیادی سطح سے تبدیلیاں کرنے کی کوششیں شروع کی جائیں ۔
مرکزی حکومت وقفہ وقفہ سے اپنے ایجنڈہ کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے ۔ جب کبھی اسے عوام کی ناراضگی کا سامنا ہوتا ہے اس کے سامنے شکست کے اندیشے ہوتے ہیں تو پھر نیا جھانسہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اب جبکہ بی جے پی مرکز میں دس سال سے اقتدار میں ہے تو عوام میں مخالف حکومت لہر پیدا ہونے لگی ہے ۔ اس کا اندازہ ہونے لگا ہے ۔ ریاستوں میں صورتحال اور بھی شدید ہے ۔ اسی کو محسوس کرتے ہوئے مرکز کے ساتھ انتخابات کا نعرہ دینے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ سیاسی مقصد براری کیلئے اس طرح کے منصوبوںکو پایہ تکمیل کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ اپوزیشن جماعتوں کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔