ای وی ایم میں ہیراپھیری کے شکوک و شبہات

   

پروفیسر یوگیندر یادو
الکٹرانک ووٹنگ مشین پر پچھلے نو دس برسوں سے کافی اعتراضات کئے جارہے ہیں خاص طور پر اپوزیشن جماعتیں الیکشن کمیشن پر یہ واضح کرچکی ہیں کہ ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے اور نتیجہ میں انتخابی نتائج حکمراں جماعت یعنی بی جے پی کے مرضی و منشا کے مطابق آرہے ہیں اس معاملہ میں اپوزیشن کا دعوی ہیکہ اگر اپوزیشن انتخابات ( رائے دہی ) کے بعد چوکسی برقرار نہ رکھے ای وی ایم پر توجہ نہ دے تو پھر ای وی ایم بدلے جارہے ہیں نتیجہ میں بی جے پی کو فائدہ ہورہا ہے ۔ اپوزیشن متعدد مرتبہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کو اس بارے میں متوجہ بھی کرواچکی ہے لیکن الیکشن کمیشن آف انڈیا حکومت کی طرح بضد ہیکہ اس میں کسی قسم کی ہیرا پھیری نہیں کی جاسکتی ( اپوزیشن یہ کہہ رہی ہیکہ اگر ہیرا پھیری نہ بھی کی جاسکتی ہے لیکن ای وی ایم بدلے تو ضرور جاسکتے ہیں اور ایسا ہو بھی رہا ہے ) بہرحال اب ہمارے ملک کی سیاست میں پھر سے ای وی ایم پر دوبارہ بحث شروع ہوگئی ہے اگرچہ کے ای وی ایم میں ہیرا پھیری اور شکوک و شبہات پر دلائل اور جوابی دلائل کے بارے میں کچھ بھی نیا نہیں ہے وہی شکوک و شبہات ہیں اور وہی ان کے جوابات ہیں جو پہلے تھے لیکن حالیہ عرصہ کے دوران 5 ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات اور مجوزہ لوک سبھا انتخابات اس کی تازہ عجلت کا باعث بنتے ہیں یعنی یہ ایک ایسا سیاسی اور انتخابی مسئلہ بن گیا ہے جس کا فوری اور ہنگامی حل ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے یہ کسی بھی طرح واضح نہیں کہ ای وی ایم پر پیدا شدہ شکوک و شبہات کے تنازعہ کو حل کرنے کیلئے فل پروف نظام ( پوری طرح محفوظ ہونے کے مقام ) کا تقاضہ کرتا ہے جو اس کی ٹمپرنگ یا اس سے چھیڑ چھاڑ کو ناممکن بتاتا ہے جن سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو ای وی ایم پر ایقان ہے وہ انتخابی دھاندلیوں کے فارنسک ثبوت و شواہد طلب کرتے ہیں ایسے میں خوش قسمتی سے اس ختم نہ ہونے والے تنازعہ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن یا ختم کرنے کا ایک طریقہ موجود ہے ۔ آپ کو بتادوں کہ اپوزیشن اتحاد انڈیا کے حال ہی میں ہوئے اجلاس نے ای وی ایم پر بحث کو قومی ایجنڈہ پر واپس لایا ہے اگرچہ ان اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد انڈیا کی متفقہ قرارداد کانگریس کی ناکامیوں کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو مورد الزام ٹھہرانے سے روکتی ہے لیکن انڈیا کے اجلاس میں متفقہ طور پر منظورہ قرارداد اس بارے میں گہری اور سنگین تشویش کا اظہار کرتی ہے ایک بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ای وی ایم کے کام کرنے کی سالمیت کے بارے میں کئی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور یہ ایسے شبہات نہیں ہے کہ صرف اپوزیشن جماعتیں ہی اس کا اظہار کررہی ہیں بلکہ ای وی ایم پر ماہرین اور پیشہ وارانہ ماہرین نے بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے ۔ شکر ہیکہ اپوزیشن جماعتوں نے بیالٹ پیپر کے Roll back کا مطالبہ نہیں کیا ہے ۔ اپوزیشن اتحاد INDIA نے ایک مختلف تجویز پیش کی ہے اور وہ یہ ہیکہ ووٹر ویری فائیڈ پیپر آؤٹ ٹرپل (VVPAT) سلپ کو باکس میں گرانے کی بجائے اسے رائے دہندہ کے حوالے کردینا چاہئے جو اس سلپ کو اپنی پسند یا انتخاب کی توثیق کے بعد ایک علحدہ بیالٹ باکس میں ڈال دے گا اور VVPAT سلپ کی 100 فیصد گنتی کی جانی چاہئے اس سے شکوک و شبہات کا ازالہ ہوجائے گا اس بارے میں اپ کو بتادیں کہ اسوسی ایشن فار ڈیموکرٹیک ریفارمس نے اس معاملہ پر غور کیلئے سپریم کورٹ میں ایک درخواست داخل کی ہے جس پر سرمائی تعطیلات کے بعد عدالت عظمی میں سماعت ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔ اس مسئلہ پر جو جوش و خروش پایا جاتا ہے ( ای وی ایم کے حامیوں اور مخالفین میں ) اور ایک ماہر سیفالوجسٹس کی حیثیت سے اپنے پچھلے جنم کے گناہوں کو دیکھتے ہوئے مجھے ایک سادہ سا نکتہ بیان کرنے کیلئے بار بار تبصرہ کرنا پڑا اگرچہ ای وی ایم میں ہیرا پھیری کی جاسکتی ہے اس بارے میں شک و شبہ کرنے کی اچھی وجوہات ہیں اس کے باوجود ہمارے پاس ابھی تک ایسے شواہد نہیں ہیں جس سے بادی النظر میں بتایا جائے کہ الیکشن میں دھاندلیوں کیلئے الٹ پھیر کی گئی میں اس وقت سے اس موقف پر قائم ہوں جب چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے 2006 میں اپنی شکست کیلئے ای وی ایمس کو ذمہ دار قرار دیا تھا اور جب جی وی ایل نرسمہاراو نے جو اب بی جے پی کے ایک لیڈر ہیں، ایک انگریزی کتاب ’’ جمہوریت خطرہ میں ‘‘ زیرعنوان ایل کے اڈوانی جی کے آشرواد سے لکھی تھی ۔ میں نے 2014 کے بعد بھی بی جے پی کی ایک بڑی اور حیرت انگیز کامیابیوں کے بعد بھی ظاہر کردہ شکوک و شبہات کے ردعمل میں اُس موقف کا اعادہ کیا تھا جیسا کہ آپ تصور کرسکتے ہیں اس ضد اور عوامی اصرار نے مجھے اپنے سیاسی دوستوں میں مقبول نہیں بنایا ۔
آخر ای وی ایم پر عدم اعتماد کی وجہ کیا ہے ؟ ای وی ایمس پر جو شکوک و شبہات ہیں وہ بھی تین موضوعات پر مبنی ہے جن میں سے ہر مفروضہ معنی خیز ہے اس میں سب سے پہلا مشین پر عدم اعتماد ہے کیونکہ کسی بھی الیکٹرانک آلہ یا gadget کی پروگرامنگ اور ہیرا پھیری کی جاسکتی ہے ۔ انڈیا فورم میں ایک شائع ایک بہترین معلوماتی مضمون میں کنان گوپی ناتھن نے دکھایا ہے کہ ای وی ایمس پر شکوک و شبہات VVPAT متعارف کروانے کے بعد کم نہیں ہوئے بلکہ اس کے امکانات میں اضافہ ہوا ۔ دوسری بات انہوں نے یہ بتائی یا دکھائی کہ موجودہ حکومت پر سیاسی عدم اعتماد کی وجہ سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا یہاں تک کہ انتہائی سادہ لوح سیاستداں دوسرے فہرست رہنماؤں پر ای وی ایم ٹمپرنگ کے الزام نہیں لگائے گا یہ دو ہی ہیں جو آج سب سے زیادہ اہم لیڈر بنے ہوئے ہیں ۔ ذرا اپنے ذہن پر زور دیں اور چشم تصور سے دیکھیں گے اگر کوئی ان دونوں اہم لیڈروں سے یہ کہے کہ ای وی ایم مشینوں کو ہیک کرنے کا ایک محفوظ اور قابل بھروسہ طریقہ ہے تب کیا وہ اخلاقی بنیاد پر اس سے انکار کریں گے ؟ آخر میں ایک ادارہ جاتی عدم اعتماد ہے جو اسی شک کو ایک مکمل سازشی نظریہ میں تبدیل کردیتا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی خود مختاری اور اتھاریٹی کے تیزی سے زوال کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اس وہم اور گمان میں مبتلا نہیں ہے کہ انتخابی نگرانکار ادارہ حکمراں جماعت یا حکمرانوں کے کسی بھی ناجائز مطالبہ کی مزاحمت کرسکتا ہے ۔ ایک اور اہم بات یہ ہیکہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق تمام سنجیدہ سوالات کو نظرانداز کر کے اس معاملہ کو سلجھانے میں مدد نہیں کی بلکہ Hackathons جیسی چالیں اختیار کی ۔ یہ تینوں قابل قدر مفروضے صرف یہ ثابت کرتے ہیں کہ ای وی ایم میں ہیرا پھیری یا چھیڑ چھاڑ ایک حقیقی امکان ہے لیکن اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ یہ کسی الیکشن میں ہوا ہو ۔ اس معاملہ میں مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات کی تازہ ترین مثال لے لیں یہ نتیجہ پوری طرح متضاد تھا جیسا کہ کئی نتائج ہیں کسی سیاسی صحافی لیڈر نے یا اوپنن پول (سوائے ایک ایگزٹ پول کے ) بی جے پی کی اتنی بڑی جیت کا تصور نہیں کیا تھا انہیں کسی بھی طرح اس بات کی امید نہیں تھی کہ بی جے پی 8 فیصد پوائنٹ کی برتری حاصل کرے گی ۔ مدھیہ پردیش میں بے شمار سیاسی مبصرین صحافیوں اور سیفالوجسٹس نے دورہ کیا ریاست کے چپہ چپہ گئے میں نے بھی ساری ریاست کا دورہ کرتے ہوئے انتخابی رجحانات کو بہت قریب سے دیکھا ۔ مدھیہ پردیش میں جو نتائج آئے میں ان پر یقین نہیں کرسکتا میرا ہنوز یہ احساس ہیکہ ان نمبروں میں کچھ گڑبڑ ہے دال میں کچھ کالا ہے لیکن وہ ثبوت کے طور پر شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ کانگریس نے واضح طور پر الزام عائد کیا کہ پوسٹل بیالٹس اور ای وی ایم ووٹ گنتی میں فرق پایا گیا ہے یہ عجیب ہے لیکن ایسا نہیں کہ جس کی ماضی میں نظر نہ ملتی ہو ایک اور اہم بات ہیکہ چھوٹی سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدوار کے ووٹ شیئر میں عجیب و غریب حد تک کمی آئی ہے ۔ اس کے برعکس بی جے پی کے ووٹ شیر میں زبردست کمی آئی ہے ایک اور بات جب مدھیہ پردیش کے انتخابی نتائج جاری کئے گئے اس کے بعد ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ ہونے کا دعوی کرنے والوں نے پرزور انداز میں کہا کہ ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے نتائج بدلے ہیں جبکہ ای وی ایم میں یقین کرنے والے یہی کہتے رہے کہ یہ شکست خوردہ سیاستدانوں کا موقف ہے ۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن آف انڈیا مسلسل یہ دعوی کررہا ہے کہ ای وی ایم چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاسکتی ۔ گوپی ناتھن یہی کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن یا پھر سپریم کورٹ کو عوامی اعتماد برقرار رکھنے کیلئے اضافی طریقہ کار کے ساتھ آگے آنا چاہئے اس معاملہ میں وہ ایسی تین چیزیں کرسکتا ہے جس میں ایک VVPAT سلپ کا رائے دہندوں کو دینا شامل ہے لیکن مجھے ایسا کم از کم 2024 کے عام انتخابات میں تو نہیں لگتا اس کے علاوہ ای سی آئی کو پبلک ڈومین میں کنٹرول یونٹ کیلئے استعمال ہورہے سافٹ ویر کا Source Code پیش کرنا چاہئے جس سے بڑے پیمانے پر شکوک و شبہات کا ازالہ ہوسکے گا ۔