بابائے قوم یا بابائے ہندوتوا؟

,

   

مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے وی ڈی ساورکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال ظاہر کیاکہ ہندوستان کی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے۔

ہندوستان کی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کے متعلق شاہ کے نظریات قابل فہم ہیں کیونکہ سابق صدی کے تمام بیشتر تاریخ تعصب پسندی پر مبنی اور اس کا جھکاؤ بھی برطانوی حکومت کی طرف تھا۔

تاہم ان تاریخوں کو 1970کے دہے سے دوبارہ لکھنا شروع کیاگیاتھا۔ پراسکیول اسپیرس کی ”تاریخ ہندوستا ن“ کو ان دنوں بڑے مشکل سے تاریخ کے اخری الفاظ مانا جاتا ہے۔

اوراس کے بعد شاہ کے کہنے کے مطابق متبادل تاریخوں کو بائیں بازو کے تعصب کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ تاہم جو بات سامنے ائی ہے‘ جس میں بی جے پی قائدین کی جانب سے ساورکر کی ’بازآبادکاری“ کے حصہ کے طور پر پہل مانی جاتی ہے‘ جس پر مہاتماگاندھی کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام عائد ہے۔

آیا وہ مہاتماگاندھی کے قتل کی سازش کا حصہ تھے یا نہیں (سردار پٹیل جس کو جواہرلال نہرو کے مقدمقابل بی جے پی عظیم شخصیت کے طور پر پیش کرتی ہے انہوں نے کہاتھا کہ ساورکر سازش کا حصہ تھا)۔

بلاشبہ گاندھی کا نظریہ عدم تشدد تھا‘ جو ساورکر کے شدت پسندی کے سونچ سے بلکل مختلف ہے۔بی جے پی گاندھی اور ساورکر کو پارٹی کی“ ائیڈیالوجی“ کے طور پر فخریہ انداز میں خود کو پیش کرتی ہے (جو امریکہ کے تھامس جعفر سنن اور ویلاد میر لینن کا جس طرح موازنہ کیاجاتا ہے)۔

وہیں گاندھی نے ”ہند ومسلم اتحاد“ کو تھامے رکھا ساورکر کے جنون نے اس کو ناراض کیا اور جناح کی دوملکی سونچ کو تسلیم بھی کیا۔اس کو کسی مستند تاریخ سے ریکارڈ بھی کیا جانا چاہئے۔

ساورکر کا سب سے خطرناک ائیڈیا بھی ہندوتوا نظریہ ہے جس کے وہ بانی ہیں او ر وہ ائیڈیا یا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں او رعیسائیوں کی حب الوطنی ہمیشہ شک کے دائرے میں رہتی ہے کیونکہ ان کی ”مقدس سرزمین“ ان کی”آبائی زمین“ سے مختلف ہے۔

جس طرح بی جے پی ساورکر کو پرموٹ کررہی ہے‘ اس کو واضح کرنے ہوگا کہ ساورکر کے اصولوں پر اس کا موقف کیا ہے‘ جس کو تسلیم کرنے سے ہندوستان کے ائین کی خلاف ورزی ہوگی اور ہندوستان بھی ایک ہندو پاکستان بن جائے گا‘ جہاں پر اقلیتیں دوسرے درجہ کے شہری سمجھے جاتے ہیں