بابری مسجد : سنی وقف بورڈ کی مولانا مدنی کی جانب سے مذمت

,

   

٭ نئی دہلی : یہ کہتے ہوئے کہ صدرنشین یا صدر جو کسی وقف بورڈ کا ہو صرف ایک نگرانکار یا بااعتماد شخص ہوتا ہے جو وقف جائیدادوں کی نگرانی کرتا ہے اور ان کا مالک نہیں ہوتا۔ صدر جمعیتہ العلمائے ہند مولانا سید ارشد مدنی نے آج کہا کہ سابق اولذکر کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ کوئی مسجد یا وقف جائیداد عطیہ میں دے دے۔ وہ یوپی وقف بورڈ کے مبینہ اقدام کی مذمت کرتے ہوئے یہ بیان دے رہے تھے جس کے بموجب سنی وقف بورڈ نے اپنی اپیل سے دستبرداری اختیار کرلی ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے صدر جمعیت نے کہا کہ مسجد اللہ سے وابستہ ہے اور کوئی بھی شخص یہ قطعہ اراضی یا جائیداد کسی کو بھی عطیہ نہیں دے سکتا چاہے اس کا مقصد کچھ بھی ہو۔ اللہ کی جائیداد کو اپنا قطعہ اراضی جسے مسجد کیلئے مختص کیا گیا ہو واپس لینے کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ وہ اس کا موقف تبدیل کرسکتا ہے۔ جمعیتہ العلمائے ہند ان 8 فریقین میں سے ایک ہے جو بابری مسجد۔ رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ کی فریق ہیں۔ مولانا مدنی نے پرزور انداز میں اپنا موقف تاریخی بابری مسجد کے بارے میں دہرایا کہ اس کا موقف کسی بھی قیمت پر تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور نہ کسی ادارے یا فرد کو اس کا اختیار ہے کہ مسجد کسی کے حوالہ کردے یا تحفہ میں دے دے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بابری مسجد مقدمہ صرف دیکھ بھال کا مقدمہ نہیں بلکہ ملکیت کا مقدمہ ہے۔ سنی وقف بورڈ مبینہ اپیلوں دستبردار ہونے کے اقدام کے بارے میں مولانا مدنی نے کہا کہ مسجد کا موقف سودے بازی کے قابل نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کے بارے میں ہندوستانی مسلمانوں کا موقف ہمیشہ یہی رہا ہیکہ یہ قطعہ اراضی مسجد کیلئے مختص کی گئی تھی۔ اس کا موقف تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور نہ کسی بھی انداز میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے شرعی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے مسلمانوں پر زور دیا کہ انہیں مسجد کا موقف تبدیل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ یہ فیصلہ دن تک بھی عبادتگاہ رہے گی۔ چنانچہ مسلمان اسے کسی کے حوالہ نہیں کرسکتے۔ مولانا نے کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں کا دعویٰ تاریخی حقائق اور شہادتوں پر مبنی ہے کہ بابری مسجد یہاں پر کسی مندر یا کسی دوسری جگہ کی عبادتگاہ کو منہدم کرکے تعمیر کی گئی ہے۔ انہوں نے سنی وقف بورڈ کے مبینہ فیصلہ کی مذمت کی کہ وہ مقدمہ سے دستبردار ہورہا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ مسلم برادری کے نفسیاتی طور پر حوصلے پسند کرنے کی ایک دانستہ کوشش ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بابری مسجد غیرقانونی اور بالادستی کی شکار ہے۔ انہوں نے کہا نشاندہی کی کہ ہندوتوا کارکن مبینہ طور پر رام اور سیتا کی مورتیاں مسجد میں ایک خفیہ طور پر رکھ چکے ہیں۔ اس کے بعد یو پی کی ریاستی حکومت نے فبروری 1986ء میں اسے مقفل کردینے کا تیقن دیا تھا لیکن قفل دوبارہ کھولے گئے اور آخرکار ڈسمبر 1992ء میں مسجد دن دھاڑے ہزاروں ارکان پولیس عملہ کی موجودگی میں شہید کردی گئی اور ایک عارضی مندر اس کی اراضی پر تعمیر کیا گیا کیونکہ دستورہند ہمیں اس بات کا حق دیتا ہے کہ اس ناانصافی کے خلاف قانونی ذرائع سے جدوجہد کریں۔ ہم عدالت میں اراضی کیلئے مقدمہ لڑ رہے تھے۔