بابری مسجد شہادت معاملے پر نظر ثانی کے لئے دائر کردہ درخواست کو الہ آباد ہائی کورٹ نے کیامسترد

,

   

بابری مسجد کو کارسیوکوں نے 6ڈسمبر1992کو شہید کردیاتھا۔
لکھنو۔مذکورہ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے بابری مسجد شہادت معاملے کے تمام 33ملزمین افراد بشمول سابق نائب وزیراعظم ایل کے اڈوانی‘ اور اس وقت کے اترپردیش چیف منسٹر کلیان سنگھ‘ سینئر بی جے پی قائدین مرلی منوہر جوشی‘ اوما بھارتی‘ونئے کٹیار‘ سادھو راتمبرا‘ برج بھوشن شرن سنگھ کی برات کے خلاف دائر نظرثانی کی درخواست قابل سماعت نہیں ہے اوراس لئے اپنے دفتر کو ہدایت دی کہ نظرثانی کو مجرمانہ اپیل کے طور پر دائر کیاجائے۔

مذکورہ عدالت نے سنوائی کی اگلی تاریخ یکم اگست مقرر کی ہے۔ مذکورہ احکامات جسٹس دنیش کمار سنگھ کی بنچ نے دئے ہیں۔ اس معاملے پر اس سے قبل سنوائی 11جولائی2022کو مقرر تھی مگر نظرثانی کی درخواست دائر کرنے والے وکلاء نے اس پر التواء کا مطالبہ کیاتھا۔

مذکورہ بنچ نے رضامندی ظاہر کی مگر پیر کے روز نظرثانی کی درخواست دائر کرنے والے وکلاء کو پیر کے روز متنبہ کیاکہ ان کی کسی بھی درخواست پر پیر کے روز سنوائی کو ملتوی نہیں کیاجائے گا۔

ایودھیا کے دوساکنان حاجی محمود احمد اور سید اخلاق احمد نے یہ درخواست دائر کی تھی۔دونوں درخواست گذاروں نے اپنی درخواست میں دعوی کیاکہ وہ متنازعہ ڈھانچہ شہید کرنے کے الزام میں ملزمین اور مبینہ متاثرین کے خلاف مقدمے کے گواہ ہیں۔بابری مسجد کو کارسیوکوں نے 6ڈسمبر1992کو شہید کردیاتھا۔

طویل قانونی لڑائی کے بعد مذکورہ سی بی ائی کی خصوصی عدالت نے 30ستمبر2020کے روز کریمنل سنوائی میں مذکورہ فیصلہ سنایا اور تمام ملزمین کو بری کردیاتھا۔


سنوائی کرنے والے جج نے نیوز پیپرس کے مضامین‘ ویڈیوکلپس کو بطور ثبوت تسلیم کرنے سے انکار کردیا کیونکہ اس کے حقیقی عدالت میں پیش نہیں کیاگیاتھا‘ وہیں مقدمہ کی سار ی بنیاد دستاویزی شواہد کے تکڑوں پر ٹکی ہوئی تھی۔

مذکورہ سنوائی کرنے والے جج نے یہ بھی کہاکہ سی بی ائی اس بات کا ثبوت پیش نہیں کرسکی کہ متنازعہ عمارت کو شہید کرنے والے ’کارسیوکوں“ سے ذہنی طور پر ملزمین نے ملاقات کی تھی۔