بابری مسجد معاملہ میں ریویو پٹیشن کے حق میں نہیں ہیں مسلمان: مولانا سید سلمان ندوی

,

   

ممبئی: مولانا سید سلمان ندوی نے ایک مرتبہ پھر اس بار کو دہرایا کہ ہندوستانی مسلمانو ں کی اکثریت بابری مسجد معاملہ میں ریویوپٹیشن کے حق میں نہیں ہیں۔ کیونکہ شریعت میں مسلکی طور پر ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ مسجد کو کسی دوسرے مقام پر منتقل کیا جاسکتا ہے، البتہ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی کو خصوصی درجہ حاصل ہے۔ مولانا سلمان ندوی نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ نے کوفہ میں ایک مسجد کو منتقل کرکے وہاں کھجوروں کا بازار آباد کیا تھا، جبکہ کئی مسالک اس پر متفق ہیں کہ مسجد کومنتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ سعودی عرب اور مصر اور دیگر ممالک میں اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بابری مسجد اوررام مندر معاملہ برسوں پرانا ہے اور 1947ء کے بعد ایک بار پھر سراٹھایا اور 1948ء میں بابری مسجد میں مورتیا ں رکھے جانے کے بعدسے مزید یہ معاملہ گرم ہوگیا۔ لیکن مسلمان قیادت مسجد سے مورتیاں ہٹوانے میں ناکام ثابت ہوئی۔ انہو ں نے کہا کہ کانگریس جیسی سیکولر قیادت کے دور میں یہ سبھی واقعات پیش آئے۔ وزیر اعظم راجیو گاندھی کے دور حکومت میں شیلا نیاس کروایا گیا۔ اور وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کے دور حکومت میں مسجد کو شہید کردیا گیا اور وہاں عارضی مندر تعمیر کی گئی۔ بڑے پیمانے پر مسجد کو شہید کیا گیا، ہزاروں مسلمانو ں کا قتل کیا گیا جو کچھ ہوا وہ کانگریس کے دور حکومت میں ہوا۔

مولانا ابوالحسن ندوی عرف علی میاں نے مسجد کی تحفظ کی پہل کی اور مدراس کے شنکر اچاریہ سے گفتگو بھی کی۔ ان کا مقصد ہندو مسلم اتحاد کوبرقرار رکھنا تھا۔ان کی تجویزیہ تھی کہ مسجد اپنی جگہ برقرار رہے اور مسجد کے آس پاس کی اراضی پر مندر تعمیر کیا جائے گا لیکن بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے اسے مسترد کردیا او رمسلم پرسنل لاء بورڈ کے چند ممبران بھی اس تجویز سے ناخوش تھے۔