بجٹ ‘ توقعات سے پرے

   

قحط زدہ سی لگے ہے یہ زندگی اپنی
طویل دھوپ میں بس دو قدم کی بارش ہے
بجٹ ‘ توقعات سے پرے
نریندر مودی حکومت کی دوسری معیاد کے اولین بجٹ کو آج پارلیمنٹ میں پیش کردیا گیا ۔ حکومت کا دعوی ہے کہ اس بجٹ کے ذریعہ ملک کے غریب عوام ‘ کسانوں اور پسماندہ و پچھڑے ہوئے طبقات کو با اختیار بنانے اور انہیں سہولیات فراہم کرنے پر خاص توجہ دی گئی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ اس بجٹ کے ذریعہ ہندوستان کے غریب عوام کو طاقت ملے گی اور ملک کے نوجوانوں کو بہتر مستقبل فراہم کیا جاسکے گا ۔ اس بجٹ کے ذریعہ ہندوستان کو 21 ویں صدی میں لیجانے کی جو توقعات ہیںا ن کو پورا کرنے کی سمت پیشرفت ہو سکے گی ۔ خود وزیر فینانس نرملا سیتارامن کا کہنا تھا کہ اس بجٹ کے ذریعہ سرکاری پروگرامس پر عمل آوری میں تیزی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ اس کے ذریعہ جو سرخ فیتہ کا عمل تھا اور جو رکاوٹیں تھیں انہیں دور کرنے میںمدد مل سکتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کا جو رد عمل رہا ہے وہ بھی روایتی ہی رہا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بجٹ میں سماج کے بیشتر طبقات کیلئے کچھ بھی نہیں ہے اور یہ صرف پرانی بوتل میں نئی شراب کے مترادف ہے ۔ جو بجٹ نرملا سیتارامن نے آج پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے اس میں مڈل کلاس کیلئے کچھ بھی نہیں ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی حکومت نے مڈل کلاس کو بالکل فراموش کردیا ہے ۔ ان کیلئے کوئی اسکیم یا راحت فراہم نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی انکم ٹیکس استثنی کی حد میں کوئی اضافہ کیا گیا ہے ۔ اس کے برخلاف پٹرول اور ڈیزل کو مزید مہنگا کردیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں سب سے زیادہ بوجھ بالواسطہ طور پر مڈل کلاس طبقہ ہی پر پڑیگا ۔ اس طرح اس طبقہ کو کسی طرح کی راحت پہونچائے بغیر ان پر بوجھ عائد کرنے والا بجٹ آج پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے ۔ حکومت کو امید ہے کہ بجٹ میں یکسر نظر انداز کئے جانے کے باوجود مڈل کلاس طبقہ میں حکومت کے تعلق سے کوئی شدید ناراضگی پیدا نہیں ہوگی ۔ معمولی سے جو بے چینی پیدا ہوگی اس پر حکومت دوسرے طریقوں سے قابو پا لے گی ۔ اس کے علاوہ بجٹ میں جو تجاویز پیش کی گئی ہیں ان میں دولت مند اور امیر طبقہ پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوگا ۔
حکومت کے ذمہ داروں اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی نے بجٹ پر جس طرح کا رد عمل ظاہر کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بجٹ میں سیاست کو خاص جگہ دی گئی ہے اور غریب عوام میں بی جے پی کی مقبولیت میں اضافہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے خاص طور پر ایسے طریقے اختیار کئے جا رہے ہیںجن سے یہ تاثر عام ہوجائے کہ بجٹ میں حکومت نے غریب عوام کو راحت پہونچانے کیلئے بہت کچھ کیا ہے ۔ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی راحت فراہم کی گئی ہے اور نہ کوئی اسکیم شروع کی گئی ہے جس کے نتیجہ میں غریب عوام کو کوئی معاشی راحت پہونچ سکے ۔ اس کے برخلاف پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں جس طرح کا اضافہ کرنے کی تجویز ہے اس سے مڈل کلاس کے ساتھ غریب طبقہ بھی بری طرح سے متاثر ہوگا ۔ اس پر بھی مہنگائی کا بوجھ عائد ہوگا ۔ ضروریات زندگی کا ہر سامان ان قیمتوں کے اثر سے مہنگا ہوسکتا ہے ۔ معمولی سی اشیا بھی عام آدمی کی پہونچ سے باہر ہوسکتی ہیں۔ حکومت یہ امید کر رہی ہے کہ جس طرح سے معاشی سروے میں قیاس کیا گیا ہے کہ ملک کی ترقی کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے ‘ اگر ایسا اضافہ ہوتا ہے تو جو نئے مواقع غریب اور مڈل کلاس طبقہ کو دستیاب ہونگے ان کے ذریعہ ان میں پیدا ہونے والی ناراضگی پر حکومت آسانی کے ساتھ قابو کرلے گی ۔ یہ محض حکومت کی امیدیں ہیں اور شائد ایسا ہونے نہ پائے ۔
حکومت نے اپنے بجٹ میں کچھ اہم شعبوں اور طبقات کو بھی بری طرح سے نظر انداز کیا ہے ۔ جس طرح سے مڈل کلاس طبقہ کیلئے اس بجٹ میں کوئی خاص کشش ہیں ہے اسی طرح اقلیتوں کو بھی یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ بجٹ میں ان کیلئے نہ کوئی خصوصی توجہ کی بات کہی گئی ہے اور نہ ہی کوئی نئی اسکیم یا پروگرامس یا منصوبے پیش کئے گئے ہیں۔ سابقہ اسکیمات اور پروگرامس کا بھی کوئی تفصیلی خاکہ پیش نہیں کیا گیا ہے ۔ جملوں اور الفاظ کے استعمال سے بجٹ کو پرکشش بنانے پر حکومت نے توجہ دی ہے ۔ عوام کی امیدوں و توقعات پر اس نے کوئی دھیان دینا ضروری نہیں سمجھا ۔ حکومت کی جو حلیف جماعتیں ہیں ان کی تجاویز کو بھی شائد حکومت نے قابل غور نہیں سمجھا ہے ۔ بحیثیت مجموعی مودی حکومت کی دوسری معیاد کا پہلا بجٹ سابق کی طرح ہی الفاظ اور اعدادو شمار کا الٹ پھیر ہی دکھائی دیتا ہے ۔