برصغیر میں کٹرپسندی کی جڑیں، فرقہ پرستی کے دھارے

   

رام پنیانی
سر سید اور کاشی کے راجہ شیو پرساد نے فروغ پذیر طبقات اور اُن کی نمائندہ تنظیموں کے یکجا ہونے کے پس منظر میں ’یونائیٹیڈ انڈیا پیٹریاٹک اسوسی ایشن‘ کی اگست 1888ء میں تشکیل عمل میں لائی تھی۔ اس اسوسی ایشن کے بعض مقاصد یوں تھے: انگریزوں کو واقف کرانا کہ تمام برادریاں اور اونچے طبقات کانگریس کے ساتھ نہیں ہیں؛ ہندو اور مسلم فرقوں کی تنظیموں کے خیالات سے برٹش پارلیمنٹ کو واقف کرانا؛ بھارت میں انگریزوں کی حکمرانی کو مضبوط کرنا اور لوگوں کو کانگریس سے دور کرنا۔ اس اسوسی ایشن سے جڑے کئی لوگ بعد میں مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کا حصہ بن گئے۔ ان تبدیلیوں کو جہاں مختلف شعبہ حیات کے لوگ یکجا ہونا شروع ہوئے، جس سے سیاسی منظر میں جگہ پانے لگے، اسے سریندر ناتھ بنرجی نے کچھ یوں قرار دیا ہے کہ ’بھارت فروغ پذیر قوم ہے‘ یعنی یہ سامراجی اقتدار کے معاملے میں ہندوستانی عوام کے مشترک مفادات کی عکاسی ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہوا کہ بادشاہوں کے دور کے برعکس جدید مملکت کا اُبھراؤ شروع ہوا۔اس مرحلے پر مصلحین جیسے رام موہن رائے نفرت انگیز رواجوں جیسے ستی کی رسم کو ختم کرنے پر زور دے رہے تھے۔ پھولے عصری تعلیم حاصل کرنے کی اپیل کررہے تھے اور ساوتری بائی اور پنڈتا رمابائی نے خواتین کی تعلیم کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ پھولے نے زمیندار۔ برہمن گٹھ جوڑ کی سماجی طاقت کے خلاف غیربرہمن تحریک کی بنیاد بھی ڈالی۔ بعدازاں بالاصاحب امبیڈکر نے اسے مزید آگے بڑھایا اور اچھوتوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کی۔ یہ سب ہندوستانی قوم کے بڑے اجزائے ترکیب ہیں۔
اُبھرتے طبقات
ان تبدیلیوں کے سبب سوسائٹی میں تیزی سے بدلاؤ شروع ہوا، اور نئے سماجی طبقات، صنعت کار، صنعتی ورکرز اور تعلیم یافتہ طبقات قوم کی سماجی زندگی کیلئے اہم جز بننا شروع ہوئے۔ قومی تحریک کی بنیاد اُبھرتے طبقات کی اُمنگوں پر مبنی رہی، جبکہ فرقہ پرستانہ تنظیموں کی جڑیں زمینداروں اور راجاؤں و نوابوں (ہندو یا مسلم) کے زوال پذیر طبقات میں پیوست رہیں۔ اس لئے محض ایک انگریز افسر کے تخیل (جیسا کہ کئی لوگ سمجھتے ہیں) کے برخلاف ہیوم کی مساعی ہندوستانی قوم پرستوں کیلئے بہترین طریقہ رہا کہ اپنے سیاسی عزائم کا اظہار کریں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تمام مذاہب، ذاتوں اور خطوں کے لوگ جوق در جوق اس آرگنائزیشن سے وابستہ ہوئے۔
فرقہ پرستانہ دھارے
فروغ پذیر ہندوستان کے خیال کا مطلب بادشاہوں؍ راجاؤں کے دَور کے برعکس جدید مملکت قائم ہونے کا نظریہ ہے۔ فرقہ پرستانہ دھاروں سے 1906ء میں مسلم لیگ، 1909ء میں پنجاب ہندو سبھا اور 1915ء میں ہندو مہاسبھا وجود میں آئے۔ بعد میں مسلم لیگ نے کہا کہ مسلمان علحدہ قوم ہیں اور انھیں علحدہ ملک ملنا چاہئے۔ ہندو مہاسبھا کے ونایک دامودر ساورکر نے بیان دیا کہ ملک میں دو اقوام ہندو قوم اور مسلم قوم ہیں، اور چونکہ یہ ملک ہندوؤں کا ہے، اس لئے مسلم قوم کو ہندو قوم کے ماتحت رہنا پڑے گا۔ ہندو راشٹر کے مقصد سے آر ایس ایس 1925ء میں تشکیل پائی۔ ان تمام تنظیموں کی سماجی جڑیں زمینداروں؍ بادشاہوں اور ان سے وابستہ حامیوں کے نظریہ میں پیوست ہیں۔ مذہب کے نام پر قوم پرستی ذات، طبقہ اور جنس کی درجہ وار اقداروں کیلئے مکھوٹا ہے۔
آر ایس ایس کی ہندو بنیادپرستی
آر ایس ایس کی سیاست کی نوعیت کے کئی مفہوم ہیں: فرقہ پرستانہ ہونے کے علاوہ کیا یہ کٹرپسند ہے یا فسطائی؟ ماہرین تعلیم اور سیاسی پنڈتوں نے اس کی سرگرمیوں کے پس پردہ حقیقی سیاست کو آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ آر ایس ایس محض کوئی سیاسی تنظیم نہیں، بلکہ یہ متعدد فرقہ پرستانہ تنظیموں کی مادر تنظیم بھی ہے، اور اس کا سیاسی روپ بی جے پی ہے جو بہت معروف ہے لیکن اس کی جملہ سرگرمیوں کا چھوٹا جز ہے، جو اس کی تنظیموں بے شمار حرکتوں کے ذریعے آشکار ہیں۔ آر ایس ایس سے ملحق سینکڑوں تنظیمیں سماج کے مختلف طبقات میں سرگرم ہیں۔ ان تنظیموں کے سازباز والے رول سے قطع نظر ، آئیے دیکھتے ہیں کہ ان میں سے بعض تنظیمیں کیا نہیں کررہی ہیں جس کی ضرورت ہے اور جو سماجی گروپوں کیلئے مناسب ہے۔ مثال کے طور پر آر ایس ایس ہندوستانی دستور کو مغربی اقدار پر مبنی قرار دیتا رہا ہے، اور ایسا دستور لانا چاہتا ہے جس کی بنیاد مقدس بھارتی پُرانوں پر ہو۔
اسی طرح ’مسلم برادرہوڈ‘ بھی مغربی اقدار کی مخالف ہے۔ اس طرح کی تنظیمیں کہیں نہ کہیں مغربی روایات کو اخلاقیات میں کمزور بتاتی ہیں، جبکہ درحقیقت وہ جمہوریت میں مساوات کے نظریہ کی مخالف ہیں۔ آر ایس ایس اور کئی دیگر کٹرپسند تنظیمیں جیسے مسلم برادرہوڈ کے پراجکٹ کا مقصد ایسے سوشل سسٹم وجود میں لانا ہے جو تمام کیلئے مساوات کی جمہوری قدروں کے مخالف ہوں۔ ایک طرح سے یہ تنظیمیں سامراجی ساہوکاروں اور راجاؤں ماقبل جدید مقتدر اعلیٰ طبقات کے اقدار کے آلہ کار ہیں۔ ان سسٹمس میں اصل چیز درجہ، ذات اور جنس کی عدم مساوات ہے۔
آر ایس ایس متعدد چیارٹی کاموں میں سرگرم ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے؛ اس کا دعویٰ ہے کہ آر ایس ایس والنٹیرز کسی آفت پر وہاں سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ مسلم برادرہوڈ اور اس قبیل کی تنظیمیں بھی خیراتی کام کے شعبے میں مستعد اور سرگرم ہے۔ لیکن دونوں معاملوں میں آر ایس ایس اور مسلم برادرہوڈ یکساں ہیں؛ چیارٹی تو ظاہری چیز ہے؛ کلیدی ایجنڈا تو سوسائٹی پر مخصوص نوعیت کے سماجی تعلقات تھوپنا ہے، جیسا کہ عدم مساوات۔ بلاشبہ یہ بنیادپرست تنظیمیں فی الواقعی ایک دوسرے کا عکس نہیں ہیں؛ پھر بھی اُن کے مرکزی ایجنڈے کے بعض خصوصیات مشترک ہیں کیونکہ اُن کے سیاسی مقاصد مشابہہ ہیں۔ آر ایس ایس کے یہ تمام بڑے ذاتی اسباب کے باوجود اس کا ایجنڈا بدستور ہندو قوم پرستی ہے۔ وہ ہندوستانی دستور کے اقدار کو مغربی قرار دیتا ہے اور اس کا مقصد سوسائٹی کو دوبارہ مقدس پُرانوں میں دیئے گئے اقدار کی طرف لے جانا ہے۔اسلامی بھائی چارہ کیا چاہتا ہے؟ متوازی خطوط پر اس نے مساوات کے جمہوری اقدار کی مخالفت کا موقف اپنایا ہے، بنیادی جمہوری اداروں کو مغربی کہتا ہے، اور اس لئے اسلامی اقدار کا پرچار کرنے کی ضرورت ہے، جو اُن کی تشریح کے مطابق جنس اور سماجی گروہوں کی عدم مساوات کا موقف رکھتے ہیں۔یہ کٹرپسند تنظیمیں خصوصیت سے مرد لوگوں کی تنظیمیں ہیں، گزرے سنہری دور کی باتیں کرتے ہیں، جدید اقدار (جن کو وہ مغربی بتاتے ہیں) کی مخالفت پر زور دیتے ہیں۔ یہ کوئی بھی آرگنائزیشن کے تقابل میں تشریحی نکتہ ہونا چاہئے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جہاں آر ایس ایس نے پرچارکوں کو تربیت دی جو آگے چل کر آر ایس ایس ایجنڈے میں پیوست مختلف تنظیمیں تشکیل دیتے ہیں جن کے مختلف رسمی ڈھانچے رہتے ہیں، وہیں مسلم برادرہوڈ اور کئی دیگر بنیادپرست تنظیمیں بھی شاید زیادہ تر ایسی ہی سرگرمیوں کا احاطہ کرتے ہیں۔
یہاں یہ تذکرہ بیجا نہیں کہ عیسائی بنیادپرستی جو امریکہ میں 1920ء کے دہے میں اُبھری، اُس کی کئی خصوصیات مشابہ ہیں۔ خاص طور پر مابعد سامراج سوسائٹیوں میں سب سے پہلے تنظیموں نے مذہب کے نام پر اپنی واجبیت جتائی، اور مساوات کے اُبھرتے اقدار کی مخالفت میں وجود میں آئیں۔ ہندوستان میں جب انڈین نیشنل کانگریس کا 1885ء میں قیام عمل میں آیا، اس کا مقصد رہا کہ تمام مذہبی برادریوں کو شامل کرتے ہوئے قومیت کا تصور عام کیا جائے۔ اس کا مقصد سب کیلئے مساوات بھی رہا۔
اس کے برعکس مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا۔ آر ایس ایس نے سامراج، زمیندار طبقات سے شروعات کی، اس میں امراء اور متوسط طبقہ کے گوشے شامل ہوئے، اور زور دیا جانے لگا کہ قدیم سنہرا دور واپس ہونا چاہئے، مقدس پُرانوں اور اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والے بادشاہوں کی عظیم حکمرانی کا اعادہ ہونا چاہئے۔ آر ایس ایس نے زیادہ واضح انداز میں کئی چھوٹی تنظیمیں فروغ دیئے تاکہ یقینی بنایا جاسکے کہ لیبر اور تلقین عقیدہ کو آسانی سے بانٹا جائے، ہندو راشٹر کے اپنے ایجنڈے کیلئے سوسائٹی کے مختلف طبقات کو ساتھی بنایا جائے، نیز ہندوستانی دستور کے پوشیدہ اقدار کی مخالفت بھی کی جائے۔ اُن کا جمہوری اخلاق کی مخالفت کا مشترک مقصد ہے؛ وہ اپنے ایجنڈے کو بڑھاوا دینے کیلئے ایک مخصوص مذہب کی شناخت کا استحصال کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُن کی تنظیموں اور اظہار خیال کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں۔
ram.puniyani@gmail.com