بس میں تیرے جب تک ہے کئے جا یہ ڈرامہ

   

پرینکا گاندھی کا خوف … رابرٹ وڈرا کے خلاف کارروائی
نریندر مودی … پارلیمنٹ سے انتخابی مہم کا آغاز

رشیدالدین
انتخابی مہم کے آغاز کیلئے عام طور پر ریالیوں اور جلسوں کا انتخاب کیا جاتا ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ کو سیاسی اسٹیج میں تبدیل کردیا۔ موقع تھا صدر جمہوریہ کے خطبہ پر تحریک تشکر کا۔ نریندر مودی نے مباحث کا جواب ہی نہیں بلکہ لوک سبھا انتخابات کیلئے بی جے پی کی انتخابی مہم چھیڑ دی۔ مودی کیلئے پارلیمنٹ سے بہتر کوئی پلیٹ فارم بھی نہیں ہوسکتا تھا جہاں سے وہ ملک و بیرون ملک اپنی بات پہنچاسکیں۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اقتدار سے محرومی کے بعد بی جے پی حلقوں میں مایوسی چھا گئی تھی ۔ اہم قائدین احساس کمتری اور دفاعی موقف میں دکھائی دے رہے تھے۔ نریندر مودی کا لہجہ اور تیور نرم پڑ چکے تھے لیکن تحریک تشکر پر مباحث کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے احساس کمتری کو برتری میں بدلنے کی کوشش کی ہے ۔ تین ریاستوں کی شکست کے بعد مودی کا کانگریس اور دیگر اپوزیشن پر پہلا بھرپور وار تھا۔ 55 سال کے کانگریس اقتدار کا 55 ماہ کی اپنی حکومت سے تقابل کرتے ہوئے شعلہ نوائی اور جملہ بازی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے یہ چناؤ سے قبل مودی کا پارلیمنٹ سے وداعی خطاب ہو۔ ہر مسئلہ پر کانگریس کو جس انداز سے نشانہ بنایا گیا ، ان کے تیور اور لہجہ 2014 ء کی انتخابی مہم کی یاد تازہ کر رہا تھا ۔ گھن گرج اور منصوبہ بند تقریر لوک سبھا مہم کے نہج کا پتہ دے رہی تھی ۔ نریندر مودی نے بتادیا کہ انتخابی مہم کس انداز کی اور جارحانہ ہوگی۔ سیاسی مبصرین بھی مودی کی تقریر کو جملہ بازی کا نقطہ عروج کہنے پر مجبور ہوگئے ۔ ملک میں حکومت کے خلاف عوامی ناراضگی میں اضافہ اور مقبولیت میں کمی سے بی جے پی پر شکست کا خطر ہ منڈلانے لگا ہے ۔ تین ریاستوں کی شکست کے بعد تو اندیشے اور بھی بڑھ چکے ہیں۔ بی جے پی دفاعی موقف میں آچکی ہے ، ایسے میں نریندر مودی اس کا آخری سہارا بن چکے ہیں ۔

پارٹی قائدین میں بے چینی اور بعض قائدین کا بالواسطہ طور پر مودی کو نشانہ بنانا بی جے پی کے داخلی حالات کی عکاسی کر رہا ہے۔ ایسے میں نریندر مودی کیلئے پارلیمنٹ کو سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنے کے سواء کوئی چارہ نہیں تھا ۔ صدر جمہوریہ کے خطبہ پر اپوزیشن کے اعتراضات اور سوالات کا جواب دینے کے بجائے مودی کانگریس کو نشانہ بناتے رہے۔ ان کے پیش نظر صرف اور صرف لوک سبھا چناؤ تھا ۔ 2014 ء انتخابی مہم میں مودی کی تقاریر کے جو اسکرپٹ رائیٹر تھے ، وہ شائد دوبارہ خدمات پر طلب کرلئے گئے ہیں۔ اچھے دن اور ہر شخص کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرنے جیسے وعدوں کو بھلا دیا گیا ۔ کالا دھن تو واپس نہیں آیا ، الٹا ملک کے ہزاروں کروڑ لوٹ کر فرار ہونے والوں کو ملک واپس لانے میں بھی ناکامی ہوئی ۔ ایک لٹیرے نے تو ہندوستانی شہریت ترک کرتے ہوئے دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرلی تاکہ ہندوستانی قانون سے بچ جائے۔ نریندر مودی نوٹ بندی کے اپنے فیصلہ کی تائید کر رہے ہیں لیکن بینکوں کی قطاروں میں مرنے والے افراد سے کوئی ہمدردی نہیں۔ مودی نے مہنگائی کا ذ کر کرتے ہوئے اندرا گاندھی دور حکومت میں مقبول ہوئے فلمی گیت کا حوالہ دیا ۔ ’’باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی‘‘۔ یہ گیت مودی کے مطابق کانگریس دور کے حالات کو بیان کرتا ہے جبکہ ان کے ساڑھے چار سالہ دور میں ایسا کوئی گیت نہیں لکھا گیا۔ مودی شائد بھول رہے ہیں کہ جس وقت یہ گیت لکھا گیا تھا، گیت کار ، شاعر ، اور ادیب کا قلم آزاد تھا۔ آج تو میڈیا گھرانوں اور قلم کاروں کو خرید لیا گیا ہے۔ مخالفت کرنے پر جہد کاروں اور قلم کاروں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، اس سے دنیا واقف ہے۔ فرضی مقدمات اور ہراسانی کے ذریعہ اظہار خیال کی آزادی کو سلب کرلیا گیا۔ اگر آج قلم آزاد ہوتا تو مہنگائی اور دیگر مسائل پر فلموں کی بھرمار ہوتی۔ قلم کاروں نے چار برسوں میں جس قدر اعزاز اور ایوارڈ واپس کئے ، شائد ہی سابق میں کبھی اس قدر ایوارڈ واپسی کی مثال ملتی ہو۔ جو مخالفت کرے، اس پر ملک سے غداری کا لیبل لگادیا جاتا ہے ۔ جے این یو طلبہ قائدین پر مقدمات اس کی تازہ مثال ہے ۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ کی حقیقت سے مودی کس طرح انکار کرسکتے ہیں۔ نیشنل سیمپل سروے کے مطابق ملک میں شرح بیروزگاری گزشتہ 45 سال میں سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ۔ معیشت کی تباہی اور بیروزگاری میں اضافہ پر مودی کی خاموشی معنی خیز ہے۔ شائد وہ اسے بھی اپنے ایک کارنامہ کے طور پر دیکھ رہے ہوں۔ جملہ بازی اور لفاظی سے وقتی طور پر کچھ واہ واہی مل جائے لیکن اس سے عوام کے مسائل کم نہیں ہوں گے ۔ وزیراعظم کو کانگریس کے 55 سالہ دور سے اپنے 55 ماہ کے تقابل میں دلچسپی ہے۔ گزشتہ 55 برسوں میں بیف رکھنے کے شعبہ میں معصوم افراد کی ہلاکتوں کا چلن نہیں تھا۔ گاؤ رکھشا کے نام پر برسر عام ہلاک کرنے کے واقعات ملک کو مودی حکومت کا تحفہ ہیں۔ سماج کو مذہب کی بنیادوں پر تقسیم کرتے ہوئے نفرت کا زہر گھول دیا گیا۔ اب تو حکومت یہ طئے کرنے لگی ہے کہ عوام کیا کھائیں ، کیا نہ کھائیں؟ اگر یہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں کہ جب حکومت گھروں کا ڈیلی مینو طئے کرے گی ، مودی حکومت میں انسانوں سے زیادہ جانور کی اہمیت ہوچکی ہے۔ جانور کے نام پر انسانوں کا خون بہایا گیا ۔ حکومت کو انسانی جانوں کے تحفظ سے زیادہ جانوروں کی فکر کا اندازہ گائے تحفظ کا مشن کے قیام سے ہوتا ہے جو ووٹ بینک سیاست کے علاوہ کچھ نہیں۔ 55 سال ہوں یا 55 ماہ ، نریندر مودی کو کسی نے خوب مشورہ دیا کہ وہ ’’بچپن‘‘ کی حرکات سے باز آجائیں۔

پارلیمنٹ میں نریندر مودی نے رافیل جنگی جہازوں کے مسئلہ پر صفائی دینے کی کوشش کی لیکن دوسرے ہی دن صدر کانگریس راہول گاندھی 30 ہزار کروڑ کے اس اسکام میں کچھ تازہ ثبوتوں کے ساتھ میدان میں آگئے۔ اس طرح رافیل جنگی جہازوں کی خریدی معاملت پر ملک کی سیاست گرما گئی ہے۔ پارلیمنٹ کی یہ صورتحال ہے کہ دوسری طرف سیاسی انتقامی کارروائی کے تحت اے آئی سی سی کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کو نشانہ بنایا گیا ۔ جس دن پرینکا گاندھی جنرل سکریٹری کے عہدہ کا جائزہ حاصل کر رہی تھیں ، اسی دن انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے ان کے شوہر رابرٹ وڈرا سے منی لانڈرنگ معاملت میں پوچھ تاچھ کی۔ دراصل بی جے پی پرینکا گاندھی عملی سیاست میں داخلہ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کے بعد پرینکا گاندھی کو نشانہ بنانا مودی حکومت کے عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔ یوں تو اس طرح کے کئی مقدمات سی بی آئی اور ای ڈی کے پاس زیر التواء ہیں لیکن صرف کانگریس قائدین اور ان سے وابستہ افراد کی فائلوں کو کھولنا منصوبہ بند انتقامی کارروائی نہیں تو اور کیا ہے۔ سابق وزیر فینانس پی چدمبرم اور ان کے فرزند کارتک چدمبرم کے خلاف بھی تحقیقات میں شدت پیدا کردی گئی۔ کئی بی جے پی قائدین ہیں، جن پر اسی نوعیت کے الزامات ہیں لیکن ان کی فائل برفدان کی نذر کردی گئی۔ سیاسی طور پر ہراسانی کیلئے اگر مقدمات کا سہارا لیا گیا تو کل کانگریس برسر اقتدار آنے پر بی جے پی قائدین کو بھی اسی صورتحال سے گزرنا پڑسکتا ہے۔ پرینکا گاندھی کی مقبولیت کو روکنے کیلئے بی جے پی نے عوام کو خوش کرنے والا بجٹ پیش کیا جس میں عام آدمی متوسط طبقات اور تاجر برادری کیلئے کئی رعایتوں کا اعلان کیا گیا ۔ بجٹ سے قبل اعلیٰ طبقات کو 10 فیصد تحفظات کا تحفہ پیش کیا گیا۔ بی جے پی کو امید ہے کہ بجٹ کی رعایتوں سے لوک سبھا انتخابات میں اسے ضرور فائدہ ہوگا لیکن عوام دیکھ رہے ہیں کہ چار سال تک مسائل میں مبتلا کرنے کے بعد اچانک بی جے پی کو عوام سے ہمدردی پیدا ہوچکی ہے ۔ اترپردیش میں کانگریس کی ذمہ داری سنبھالنے والی پرینکا گاندھی کو لوک سبھا کی انتخابی مہم میں ملک کے دیگر علاقوں میں اسٹار کمپینر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اندرا گاندھی کی شبیہ رکھنے والی پرینکا یقینی طور پر بی جے پی کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ اترپردیش میں کانگریس کے بغیر ایس پی اور بی ایس پی نے اتحاد کرلیا لیکن پرینکا کے سیاست میں داخلہ کے بعد دونوں جماعتیں بھی اتحاد میں کانگریس کی شمولیت پر مجبور دکھائی دے رہے ہیں۔ پرینکا کے بغیر ہی راہول کی قیادت میں کانگریس نے تین ریاستوں میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے لوک سبھا انتخابات کیلئے نئے عزم کے ساتھ پیشرفت شروع کردی ہے ۔ عام انتخابات سے قبل کامیابی کیلئے بی جے پی کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ امریکی انٹلیجنس نے انتخابات سے قبل ہند۔پاک سرحد پر کشیدگی کی پیش قیاسی کی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کی جانب سے علحدگی پسند قائدین سے ربط قائم کرنا یا انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش تو نہیں ؟ گزشتہ دنوں نریندر مودی کشمیر میں تھے اور جلسہ عام میں اسٹیج سے ہاتھ ہلانے کا ویڈیو وائرل ہوا۔ ویڈیو میں بتایا گیا کہ مودی ہاتھ تو ہلا رہے ہیں لیکن سامنے میدان خالی ہے ، پھر کس کیلئے مودی نے ہاتھ ہلائے تھے۔ عوام کو گھروں میں بند رکھ کر مودی کشمیر میں خطاب کرنے کو اپنی کامیابی تصور کر رہے ہیں۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے حالات پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
بس میں تیرے جب تک ہے کئے جا یہ ڈرامہ
ہر شخص ابھی تیری طرف دیکھ رہا ہے