بلقیس بانو کو انصاف

   

ایسا کریں کہ آپ کہیں اور جا بسیں
اس شہر میں تو آب و ہوا دو طرح کی ہے
کئی برسوں کی ذہنی اذیت اور بے تکان جدوجہد کے بعد بالآخر گجرات فسادات کی متاثر خاتون بلقیس بانو کو آج انصاف مل گیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کی عصمت کو داغدار اور عفت کو تار تار کرنے والے درندوں کی سزا معاف کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کو کالعدم کردیا ہے اور کہا کہ گجرات حکومت کو ایسا فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا ۔ ایک طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ گجرات حکومت نے اپنے اقتدار کا بیجا استعمال کرتے ہوئے عصمت ریزی کے مجرمین کو جیل کی سلاخوں کے باہر لانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے خلاف ہندوستان بھر میں رائے ظاہر کی گئی تھی ۔ جس وقت گجرات کی بی جے پی حکومت نے عصمت ریزی کے مجرمین کی سزا میں تخفیف کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس وقت سارے ہندوستان میں کئی گوشوں کی جانب سے مذمت کی گئی تھی ۔ احتجاج کیا گیا تھا اور اس فیصلے کی شدید مخالفت کی گئی تھی ۔ حد تو یہ ہے کہ کچھ گودی میڈیا چینلس نے بھی اس فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے متاثرہ بلقیس بانو کے حق میں صدائے احتجاج بلند کی تھی ۔ بلقیس بانو کا مقدمہ گجرات فسادات کی بدترین مثالوں میں سے ایک ہے ۔ ویسے تو گجرات فسادات میں انسانیت کو رسواء کرنے والے سینکڑوں واقعات ہوئے ہیں جہاں قتل و غارت گری ‘ آگ زنی اور لوٹ مار کے علاوہ خواتین کی عصمتوں کو داغدار کرنے اور عزتوں کو پامال کرنے کے واقعات پیش آئے تھے ۔ حاملہ خواتین کو تک نہیں بخشا گیا تھا اور ان کے پیٹ میں پلنے والے بچوں کا تک قتل کرکے فخر و غرور کے ساتھ اس کا اعتراف کیا گیا تھا ۔ گجرات فسادات کو خود اس وقت کے بی جے پی کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے شرمناک کرنے والے واقعات قرار دیا تھا اور سوال کیا تھا کہ اب وہ بیرون ملک کس منہ سے جائیں گے ؟ ۔ اس کے باوجود بی جے پی حکومت کی جانب سے ان مجرمین کو رہا کردیا گیا تھا اور کچھ تو اتنے بھی بے شرم نکلے تھے کہ انہوں نے ان مجرمین کو ’’سنسکاری ‘‘ تک قرار دے دیا تھا ۔کچھ گوشوں سے ان مجرمین کی گلپوشی کرتے ہوئے انہیں تہنیت بھی پیش کرنے سے گریز نہیں کیا گیا تھا ۔
سپریم کورٹ نے آج اپنے فیصلے میں کہا کہ عواقب چاہے کچھ بھی ہوں قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جانا چاہئے ۔ اس سے یہ تاثر مل سکتا ہے کہ گجرات کی حکومت نے قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی بجائے سیاسی اغراض ومقاصد کے تحت یہ فیصلہ کیا تھا ۔ گجرات کی حکومت نے ان مجرمین کی رہائی کا فیصلہ ریاست میں اسمبلی انتخابات سے قبل کیا تھا جس سے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ اس نے محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے یہ شرمناک فیصلہ کیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے آج اپنے سابقہ فیصلے کو بھی روک دیا جو جسٹس اجئے رستوگی ( ریٹائرڈ ) نے دیا تھا ۔ اس فیصلے کے تحت مجرمین کو اپنی قبل از وقت رہائی کیلئے حکومت گجرات سے اپیل کرنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ سپریم کورٹ نے واضح کردیا کہ یہ فیصلہ بھی ان حقائق اور شواہد کی بنیاد پر دیا گیا تھا جو غلط طریقے سے مجتمع کئے گئے تھے ۔ اس طرح غلط طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے مجرمین کی جانب سے عدالت کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ یہ انتہائی شرمناک معاملہ تھا جس میں سپریم کورٹ نے متاثرہ خاتون کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے تمام مجرمین کی سزاء کو معاف کرنے کے فیصلے کو غلط قرا دیتے ہوئے ان گیارہ مجرمین کو حکم دیا ہے کہ وہ اندرون دو ہفتے دوبارہ جیل واپس چلے جائیں۔ یہ فیصلہ متاثرہ بلقیس بانو کے ساتھ انصاف کرنے والا فیصلہ ہے اور یہ گجرات حکومت کے لئے شرمندگی کا باعث بھی ہے ۔
ریاستی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو اپنے فائدہ کیلئے اس طرح سے قوانین سے کھلواڑ کرنے اور مجرمین کو رہا کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ فرقہ وارانہ ذہنیت کے حامل حکام بھی اس میں برابر کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے بلقیس بانو کیس کی سنگینی اور اس کی شرمناکی کا اندازہ کئے بغیر محض سیاسی آقاوں کو خوش کرنے اس فیصلے میں رول ادا کیا تھا ۔ جہاں تک حکومت گجرات کا سوال ہے اسے اپنی غلطی کو قبول کرنا چاہئے ۔ اس کا اعتراف کرنا چاہئے اور ملک کی عدالتوں اور بلقیس بانو سے معذرت خواہی کرنی چاہئے ۔