بنگال : حکومت اور گورنر کا ٹکراؤ

   

بوجھ بے معنی سوالوں کے اُٹھا رکھے ہیں
ہم نے سو فکر دل و جاں کو لگا رکھے ہیں
بنگال : حکومت اور گورنر کا ٹکراؤ
مغربی بنگال میں آئے دن ایسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن میں حکومت کا ریاستی گورنر کے ساتھ ٹکراو سامنے آتا جا رہا ہے ۔ جادھو پور یونیورسٹی معاملہ سے ایک طرح سے اس کا آغاز ہوا اور اب تقریبا ہر معاملہ میںریاستی گورنر اور ممتابنرجی حکومت کے مابین ٹکراو کی کیفیت پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ ممتابنرجی حکومت کا الزام ہے کہ گورنر تقریبا ہر معاملہ میں حکومت مخالف موقف اختیار کرتے ہوئے حکومت کے کام کاج میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ گورنر کا الزام ہے کہ ریاستی حکومت انہیں ربر اسٹامپ سمجھتی ہے جبکہ ہر چیز کی دستوری اعتبار سے جانچ کرنے کا انہیں اختیار اور حق حاصل ہے ۔ اس طرح سے حکومت اور گورنر کے مابین ٹکراو کی کیفیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ترنمول کانگریس کا یہ بھی الزام ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے گورنر کا استعمال کرتے ہوئے اس پارٹی کی حکومت کو ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مرکزی حکومت گورنر کے ذریعہ اپنے سیاسی عزائم و مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہوگئی ہے ۔ حکومت کے الزامات اور گورنر کے جوابی الزامات نے ایک طرح سے ریاست بھر میں ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے ۔ یہاں یہ کہا جارہا ہے کہ حکومت کی جانب سے گورنر کے عہدہ کا بیجا استعمال ہو رہا ہے اور صرف ان ریاستوں میں ایسی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے جہاں بی جے پی کی اپوزیشن جماعتوں کی حکومتیں قائم ہیں۔ اس سلسلہ میں نہ صرف بنگال کی بلکہ دہلی ‘ پڈوچیری اور حالیہ عرصہ میںمہاراشٹرا میں پیش آئے واقعات کی مثال بھی دی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں اپوزیشن کی جانب سے یہ الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ ان ریاستوں میں گورنرس کا رویہ اپوزیشن کے ساتھ معاندانہ اور جانبدارانہ ہے اور وہاں گورنر اپنی دستوری ذمہ داریوں کے مطابق کام نہیں کر رہے ہیں۔ ان سارے معاملات میں یہ تو بالکل واضح ہوگیا ہے کہ گورنروں کے عہدوں کو بھی سیاسی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس عہدہ کا جو دستوری وقار اور احترام ہے اس کا بھی کوئی پاس و لحاظ نہیں کیا جا رہا ہے ۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ دہلی میں جب اروند کجریوال کی حکومت نے پوری اکثریت کے ساتھ کام کاج کا آغاز کیا تو اس کے کام میں لیفٹننٹ گورنر کی جانب سے ہر طریقہ استعمال کرتے ہوئے رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔ سابقہ لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ پر اروند کجریوال نے مرکز کی ایماء پر کام کرنے کا الزام عائد کیا تھا ۔ دہلی حکومت کے ہر کام کاج میں گورنر ہاوز سے رکاوٹیں پیدا کی گئی تھیں۔ اسی طرح پڈوچیری میں بھی نارائن سامی کی حکومت کا الزام ہے کہ وہاں کی لیفٹننٹ گورنر اپوزیشن کی طرح کام کر رہی ہیں اور حکومت کے کام کاج کو وہ آگے بڑھانے کی بجائے رکاوٹ پیدا کرنے پر زیادہ ترجیح دے رہی ہیں۔ پڈوچیری کے چیف منسٹر نے لیفٹننٹ گورنر کرن بیدی کو ہٹلر کی بہن تک قرار دیدیا تھا ۔ سابق میں دیکھا گیا کہ ریاستی حکومتوں گورنروں کے مابین ایک طرح کا جذبہ خیرسگالی ہوا کرتا تھا اور ایک دوسرے کے احترام کو دونوں جانب سے ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا ۔ دستوری ذمہ داری کو ہر دو فریق سمجھتے تھے اور اس کا احترام بھی کیا جاتا تھا ۔ جہاں کسی کو کسی ریاست میں گورنر نامزد کیا جاتا تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کی سیاسی وابستگی ختم ہوگئی ہے اور وہ دستور کے مطابق فرائض کی انجام دہی کو ہی ترجیح دیا کرتے تھے لیکن حالیہ وقتوں میں یہ احساس عام ہوتا جار ہا ہے کہ گورنر جیسے دستوری عہدہ کا بھی سیاسی مفادات کیلئے اور سیاسی وابستگیوں کی اساس پر استعمال ہو رہا ہے ۔
مہاراشٹرا میں بھی گذشتہ مہینے کے اواخر میں جو سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور اس میں گورنر کا جو سرگرم رول رہا ہے اس پر غیر بی جے پی جماعتوں نے شدید تنقیدیں کی ہیں اور کہا گیا کہ وہ مرکز کی ایماء پر کام کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ گورنرس کی جانب سے ایسے ہر الزام کی مذمت کی گئی ہے لیکن مغربی بنگال میں حالات دوسری ریاستوں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ وہاں جس طرح سے بی جے پی ‘ ترنمول کانگریس کو نشانہ بنانے اور اقتدار حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے گورنر پر عائد کئے جانے والے الزامات کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ گورنرس اپنے دستوری فرائض کی تکمیل کے وقت اپنی سابقہ سیاسی وابستگیوں سے خود کو بالاتر کرلیں اور انتہائی شفاف اور غْر جانبدارانہ انداز میں کام کریں تاکہ اس عہدہ کے وقار اور احترام کو برقرار رکھا جاسکے ۔