بھارت جوڑو یاترا ‘ یو پی کی اہمیت

   

یہی جو آج ترے دشمنوں کی صف میں ہے
کبھی اسی سے تری دوستی رہی ہوگی

کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کا آج نو دن کے وقفہ کے بعد دوبارہ آغاز ہوا اور یاترا ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی اعتبار سے اہمیت کی حامل ریاست اترپردیش میں داخل ہوگئی ۔ لونی سرحد پر کانگریس جنرل سکریٹری و انچارج اترپردیش امور پرینکا گاندھی واڈرا نے یاترا کا استقبال کیا ۔ اترپردیش میں سابق چیف منسٹر جموں و کشمیر و نیشنل کانفرنس کے لیڈر ڈاکٹر فاروق عبداللہ بھی شریک ہوئے ۔ سب سے اہمیت کی بات یہ ہے کہ ہندوستانی ریسرچ اینڈ انالائزنگ ونگ ( را) کے سابق سربراہ اے ایس دولت بھی یاترا میں شریک ہوئے اور راہول گاندھی کے ساتھ کچھ دور تک پیدل سفر کیا ۔ راہول گاندھی کی اس یاترا کو زبردست عوامی تائید تو حاصل ہوئی ہے ۔ جن جن ریاستوں سے یہ یاترا گذری ہے وہاں عوام کا ہجوم دیکھنے میں آیا ہے ۔ مختلف شعبہ جات حیات سے تعلق رکھنے والے افراد اس یاترا میں شامل ہوئے ہیں۔ عوام شہری اور دیہاتی دونوں ہی علاقوں میں جوش و خروش کے ساتھ یاترا کا حصہ بنے ہیں۔ اس یاترا کے ذریعہ کانگریس پارٹی عوام سے اپنے ٹوٹے ہوئے رابطوں کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ راہول گاندھی کا دعوی ہے کہ انہوں نے نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان شروع کی ہے اور ان کا مقصد اس یاترا کے ذریعہ ہندوستان میں نفرت کا خاتمہ کرتے ہوئے محبت کو فروغ دینا ہے ۔ ان کی یاترا پر تنقیدیں بھی ہو رہی ہیں لیکن وہ تنقیدوں کی پرواہ کئے بغیر یاترا کو جاری رکھے ہوئے ہیں جو اب اختتامی مراحل میں پہونچ رہی ہے ۔ ایک اعتبار سے یاترا اب سب سے اہم مرحلہ میں داخل ہوئی ہے کیونکہ وہ اترپردیش پہونچ گئی ہے ۔ اترپردیش وہ ریاست ہے جہاں کانگریس اپنے وجود کا احساس دلانے کی کئی بار ناکام کوشش کر چکی ہے ۔ کئی مقامی اور علاقائی جماعتوں سے علیحدہ مواقع پر اتحاد کیا گیا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکا ہے ۔ کانگریس پارٹی کو اپنے انتخابی امکانات کو بہتر بنانے کیلئے بہت ضروری ہے کہ اترپردیش میں پارٹی کو مستحکم کرے اور عوامی تائید حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے ۔ اس کیلئے خاص حکمت عملی تیار کی جائے ۔
عوامی تائید کے بغیر کسی بھی جماعت سے اتحاد کرنا نہ کانگریس کیلئے کارکرد ثابت ہوگا اور نہ ہی کسی اور جماعت کیلئے ۔ کانگریس کو صرف ریلی یا انتخابی ریلی یا جلسوں میں عوام کے ہجوم کو دیکھتے ہوئے خوش ہونے سے گریز کرنا چاہئے ۔ پرینکا گاندھی بھی اترپردیش میںعوام کی توجہ کا مرکز بن چکی ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی کوئی حکمت عملی اور پروگرام بنایا جائے کہ عوام کی تائید اور جوش و خروش کو ووٹ میں تبدیل کیا جاسکے ۔ صرف ہجوم جمع کرتے ہوئے خوش ہونے کی بجائے عوام کو اپنے حق میں برقرار رکھتے ہوئے انہیں پولنگ بوتھ تک لانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جب تک عوام میں یہ اعتماد بحال نہ کیا جائے کہ کانگریس اب ملک میں بی جے پی کا دوبارہ متبادل بن سکتی ہے اور طاقتور انداز میں ابھرتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کرنے کی طاقت رکھتی ہے عوام کو کانگریس کے حق میں پولنگ بوتھ تک لانا آسان نہیں ہوگا ۔ بی جے پی کی جانب سے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے اور انہیں اشتعال دلاتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے جو اس کیلئے کارکرد اور ثمرآور بھی ثابت ہوئی ہے ۔ اس کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے عوام کے ذہنوں میں پیدا کی گئی نفرت کو ختم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ہی عوام کو حقیقی مسائل کی سنگینی اور اہمیت کو سمجھانے کیلئے بھی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ نفرت کے ماحول میں محبت کو فروغ دینے کی کوششیں قابل ستائش ہیں لیکن ان کو مستحکم کرنا چاہئے ۔
اترپردیش کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ ایسے میں بی جے پی کے ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے پر بھی کانگریس کو توجہ دینا ہوگا ۔ اترپردیش میں سماج کے مختلف طبقات کا جو امتزاج ہے اس کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا ۔ تمام طبقات کی تائید حاصل کرنے کیلئے ابھی سے کانگریس پارٹی کو اپنے طور پر جدوجہد کرنا ہوگا ۔ جو نشستیں کانگریس کھو چکی ہے انہیں دوبارہ حاصل کرنا ہوگا اور جن نشستوں پر پارٹی کو کچھ امیدیں ہوں وہاں بھی سخت جدوجہد کرتے ہوئے اپنے ووٹ شئیر کو بڑھانا ہوگا ۔ کانگریس کے سیاسی احیاء کی کوششوں میں اترپردیش ایک اہم رول ادا کرسکتا ہے اور اس کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی بنائی جانی چاہئے ۔