بھاگوت ، مسلم قائدین اور بات چیت

   

پروفیسر اپورو آنند
حالیہ عرصہ کے دوران چند ممتاز مسلم شخصیتوں نے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی۔ یہ ایسی ممتاز شخصیتیں ہیں جو ماضی میں کافی اہم عہدوں پر فائز رہیں۔ بھاگوت سے ملاقات کرنے والوں میں ایک الیکشن کمیشن آف انڈیا کے سابق سربراہ دوسرے دہلی کے سابق لیفٹننٹ گورنر اور تیسرے ہندوستانی فوج کے سابق نائب سربراہ شامل تھے۔ ان لوگوں نے جس شخص سے ملاقات کی، وہ کوئی عام نہیں بلکہ ایک ممتاز اور مشہور و معروف شخصیت ہے۔ اگرچہ وہ حکومت میں کسی عہدہ پر فائز نہیں ہیں لیکن وہ ایک ایسی تنظیم کی سربراہی یا قیادت کرتے ہیں جو اب اپنے ارکان جیسے وزیراعظم نریندر مودی اور دیگر ارکان کے ذریعہ ہندوستان کو چلا رہی ہے یعنی حکومت کی باگ ڈور اس کے ہاتھوں میں ہے۔
گزشتہ ہفتہ ان ممتاز مسلم شخصیتوں نے بھاگوت سے اپنی ملاقات اور گفت و شنید کے بارے میں کچھ تفصیلات منظر عام پر لائیں۔ اخباری مضامین اور ویڈیو انٹرویوز کے ذریعہ ان شخصیتوں نے اس ملاقات کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی اور یہ بھی بتایا کہ آخر وہ بھاگوت سے بات چیت کو کیوں ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ بات دلچسپ رہی کہ ان شخصیتوں نے جس شخصیت سے ملاقات کی، اس نے یہ ضروری نہیں سمجھا کہ اس بارے میں ایک لفظ بھی کہے جیسا کہ ان کے ایک مددگار کا کہنا تھا کہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ان سے ملاقات کیلئے آتے رہتے ہیں۔ اس موقع پر وہ ہنس دیئے۔ اکثر مسلمانوں پر آر ایس ایس الزام عائد کرتی رہتی ہے کہ وہ بچے زیادہ پیدا کرتے ہیں جس کا اجتماعی مقصد ہندوؤں کی آبادی سے آگے بڑھ جانا ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے موہن بھاگوت کی مسکراہٹ کا یہ مطلب لیا کہ انہوں نے اس اہم ترین نکتہ کو نوٹ کیا ہے تو اس کا آخر مطلب کیا ہے؟ دوسری طرف یہ آپ کو اس چیز سے بھی واقف کرواتی ہے کہ سادگی، پابندی وقت، عاجزی و انکساری وغیرہ جیسی خصوصیات رکھتے ہوئے بھی آپ نفرت پر مبنی نظریہ کا پروپگنڈہ کرنے آپ لائسنس حاصل کرسکتے ہیں۔
گاندھی نے بھی ڈسپلن سے بھرپور سادگی سے زندگی گذاری آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں جس سادگی اور ڈسپلن کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اس کے بارے میں کسی بھی قسم کی الجھن میں مبتلا نہیں تھے۔ اگر آپ ڈسپلن پابندیٔ وقت اور سادگی کی بات کرتے ہیں تو جرمن کے نازی بھی ڈسپلین کے پابند ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے اس بارے میں اپنے دوستوں کو خبردار کیا تھا۔ آر ایس ایس سربراہ نے چند ایک سابق بیورو کریٹس اور اہم عہدوں پر فائز شخصیات کی ملاقات کو ایک بہت بڑا واقعہ ایک بہت بڑی تبدیلی کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی کہ اسلام سے خوف میں مبتلا ایک تنظیم کے سربراہ سے جن لوگوں نے ملاقات کی، تبادلہ خیال کیا، وہ مسلمان تھے۔ اس سے بڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ سابق بیورو کریٹس سابق فوجی عہدیدار اور صحافی تھے۔ ماضی میں وہ جن عہدوں پر فائز تھے۔ ان کے مقام و مرتبہ نے اس ملاقات کو اہم بنا دیا۔ ان لوگوں نے ہندوستان کیلئے فیصلہ کن عہدوں پر فائز رہ کر خدمات انجام دی تھی۔ آیا بھاگوت سے ملاقات کرنے والا وفد یہ جانتا تھا کہ آر ایس ایس نے ان کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے کو بھی ایک خطرہ کی حیثیت سے دیکھا تھا اور کیا ان لوگوں نے یہ مسئلہ بھاگوت سے بات چیت کے دوران اٹھایا۔ مارچ 2022ء میں اکھل بھارتیہ پرتی ندھی سبھا (یہ آر ایس ایس کی سب سے اعلیٰ فیصلہ ساز ادارہ ہے) کی بنائی گئی رپورٹ میں ایک مخصوص برادری کے ناپاک سازش کے ذریعہ سرکاری مشنری میں داخل ہونے پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
جو لوگ آر ایس ایس سربراہ سے ملنے گئے تھے، ان کا تعلق اسی مخصوص کمیونٹی یا مذہب سے ہے جس کے بارے میں سنگھ بات کررہا تھا اور اس کا نام لئے بغیر ایسے باتیں کی جارہی تھیں۔ سنگھ کی نظروں میں یہ اولین دراندازنہیں اور آر ایس ایس سرکاری مشنری ، ان کی شمولیت دیکھنا نہیں چاہتے۔ سنگھ کی رپورٹ میں اسی طرح کے خیالات ظاہر کئے گئے ہیں جس کا دو سال قبل ’’سدرشن نیوز‘‘ نے دعویٰ کیا تھا۔ اس نے مسلمانوں پر لو جہاد اور پھر تعلیمی جہاد شروع کرنے کے الزامات عائد کئے تھے اور کہا تھا کہ مسلمان سرکاری ملازمتوں کے ذریعہ حکومتی مشنری میں دراندازی کی سازش رچ رہے ہیں۔ یہ وہ زہر تھا جو اس چیانل نے پھیلانے کی کوشش کی تھی، لیکن سپریم کورٹ نے ستمبر 2020ء میں اسے روکنے کا حکم دیا اور اس کے باوجود سپریم کورٹ حکم کے دیڑھ سال بعد آر ایس ایس نے ایک رسمی تحریری رپورٹ میں اسی طرح کے الزامات کا اعادہ کیا۔ سنگھ دراصل ایک متوسط مسلم طبقہ کی تخلیق کا مخالف ہے کیونکہ اسے اچھی طرح اندازہ ہے کہ اقوام کی ترقی میں متوسط طبقہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے خوف ہے کہ یہ متوسط مسلم طبقہ نہ صرف اپنے حق کی بات کرے گا بلکہ سارے معاشرہ کے حق میں آواز اُٹھائے گا۔ سنگھ یہ نہیں چاہتا کہ ہندوستانی معاشرہ میں مسلمان فیصلہ ساز مقام و مرتبہ پر پہنچے بلکہ وہ وہ ہندوؤں کے ماتحت رہے اور آر ایس ایس کے منشاء و مرضی کے مطابق اپنی زندگی گذاریں۔ اگر آر ایس ایس اپنی راہ پر گامزن ہوتی ہے تو مسلمانوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آر ایس ایس چند دہے قبل اتنی ہی طاقتور اور بااثر ہوئی جیسے آج وہ طاقتور اور بااثر ہے تو جن پانچ ممتاز مسلم شخصیتوں نے بھاگوت سے ملاقات کی، انہیں پہلی فرصت میں کبھی بھی ان عہدوں پر فائز ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی جس پر وہ فائز ہوئے تھے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس بارے میں بھاگوت اور پانچ مسلم شخصیتوں کی بات چیت میں کوئی تبادلہ خیال کیا گیا ہو، لیکن ہمیں بتایا گیا کہ یہ مذاکرات کے عمل کی شروعات ہے۔ ایسے میں امید ہے کہ یہ پانچ ممتاز مسلم شخصیتیں آر ایس ایس سے اس کی مذکورہ رپورٹ سے دستبرداری کی خواہش کریں گے۔ میں نہیں جانتا کہ پانچ مسلم شخصیتوں کے وفد نے بھاگوت سے اس سلسلے میں کوئی شکایت بھی کی ہے یا نہیں یا آر ایس ایس سربراہ نے اس پر مسکرایا ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کا حوالہ ضرور دیا جاتا۔
بھاگوت نے ان سے ملنے والی مسلم شخصیتوں کو بتایا کہ مسلمانوں کا بیف کھانا ہندوؤں کو اچھا نہیں لگتا اور مسلمان پروٹین کے حصول کیلئے دوسرے ذرائع اختیار کرسکتے ہیں جس پر مسلم شخصیتوں نے بھاگوت کو یہ بتایا کہ پہلے ہی سے کئی ریاستوں میں ذبیحہ گاؤ پر پابندی ہے اور مسلمانوںکو ہندوؤں کے جذبات کا احترام اور قانون کی پابندی کرنی چاہئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان مسلم شخصیتوں میں سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ سنگھ پریوار اور بی جے پی کیرلا، گوا اور ناگالینڈ جیسی ریاستوں میں بیف کے استعمال پر اپنے منہ کیوں نہیں کھولتے۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ گائیوں سے سنگھ کی محبت صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا اور تشدد کو جائز ٹھہرانے کیلئے ہے۔ ہمارے ملک میں صرف مسلمان ہی بیف نہیں کھاتے بلکہ ہندوؤں میں ایسی کئی ذاتیں ہیں، جو بیف کھاتے ہیں۔
آر ایس ایس جانتی ہے کہ اب ہٹلر کی طرح کارروائی کرنا مشکل ہے۔ ایسے میں قطعی حل کا آئیڈیا پرکشش ہوسکتا ہے لیکن عملی طور پر ناقابل عمل اور بہت مہنگا ہے۔ ایسے میں بہترین اور سستا حل مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے دوسرا شہری بنانا ہے۔